سارا قصور ہماری اس ناکارہ’’سمجھدانی‘‘ کا ہے کہ ہم ’’حساب ‘‘کو پشتو کا حساب سمجھ رہے تھے اور وہ اردو نکلا ۔ پشتو میں ’’حساب‘‘ پیسے بلکہ نقد رقم بلکہ یوں کہیے کرنسی کو کہتے ہیں، جیسے’’ یار شہر جانا چاہتا ہوں لیکن جیب میں حساب نہیں۔’’مجھے فلاں چیز چاہیے لیکن حساب نہیں۔’’الیکشن میں کھڑا ہونا چاہتا ہوں لیکن حساب نہیں ہے۔
عرصہ ہوا پی ٹی وی پر ہم نے ایک پشتو ڈرامے کا عنوان بھی یہی بنایا’’بات حساب کی ہے‘‘۔اور مرکزی کردار کا تکیہ کلام بھی یہی تھا۔ خصوصاً اسے کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام ہوتا تو کہتا۔’’کیسے جاؤں یار بات حساب کی ہے‘‘ یعنیجہاں تمام کام نقدی سے ہوتے ہیں، وہاں وہ کردار یہی جملہ دہراتا تھا ’’بات حساب کی ہے‘‘۔
چنانچہ آج کل یہ جو اخبارات میں بیانات کی رپیڈفائرنگ ہورہی ہے، اس میں جب کہا جاتا ہے کہ حساب لیں گے یا حساب دینا پڑے گا، حساب لیے بغیر نہیں چھوڑیں گے تو ہم وہی پشتو کا حساب سمجھ لیتے تھے کہ ’’بات حساب کی ہے‘‘۔اور سیاست میں تو صرف چلتا ہے ہی حساب ہے ، حساب کے سوا اور کچھ بھی نہیں چلتا ۔
اس لیے کوئی تغرض نہیں کرتے تھے کہ معاملہ ان کے درمیان لین دین کا ہے، آپس میں کرتے رہیں کہ بیچارے اسی حساب کے لیے ہی تو آتے جاتے رہتے ہیں۔کوئی خدمت گار تو نہیں کہ مفت میں اپنا آب و خور حرام کرتے پھریں ،گالیاں کوسنے اور بددعائیں سنیں۔بنیئے کا بیٹا ’’یونہی کہاں گرتاہے‘‘ مطلب کہ بات حساب کی ہے اور ہم ٹھہرے صرف کتاب۔ہمارا ان کے انگنے میں کیا کام ہے جو ہے نام والا ،وہی بدنام ہے۔
لیکن اس دن اپنے مشیر ومعاون خصوصی برائے سب کچھ کے بیان سے بات کچھ ڈینجرس محسوس ہوئی یعنی بات صرف حساب کی نہیں، کتاب کی بھی ہے۔ بلٹ کے دائرے سے نکل کر بوٹ کے دائرے میں داخل ہورہی ہے۔معاون خصوصی، مشیر خصوصی جو کام وزیرخصوصی کا کررہے ہیں، ان کے بیانات کی حد تک اگر بات ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی کہ ان کا تو کام ہی یہی ہے، بولنا۔بولنے کے سوا کچھ نہ کرنا، بس بولنا اور پھر بولنا۔وہ ودیابالن نے جو بات فلم کے بارے میں کہی تھی کہ فلم میں تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔تو وہی بات یہاں بھی کہی جاسکتی ہے کہ سیاست کے لیے ضروری ہے، بیان ، پھر بیان اور پھر بیان۔اور اس مرتبہ اس صوبے کو جو ’’خصوصی‘‘ ملا ہے،اس نے تو بیانات کے ’’ٹوکیو‘‘ میں زلزلہ برپا کیا ہواہے۔
ٹوکیو میں زلزلہ یا جاپان میں زلزلے کے جھٹکے کا قصہ یوں ہے کہ جب ہم اخبار تیار کرنے لگتے اور آرٹ ایڈیٹر کاپی جوڑنے لگتا تو وہ بار بار خبریں مانگتا، ہم دیتے رہتے اور آخر میں جب ہمارے پاس کچھ نہ ہوتا اور وہ پھر بھی کہتا کہ اتنی سطروں کی جگہ باقی ہے تو ہم کہتے ٹوکیو میں زلزلے کے جھٹکے لگادو ۔ اور وہ لگا دیتا ۔کس نے وہ خبر پڑھنا تھی اور کس کو ٹوکیو میں زلزلوں سے کوئی سروکار تھا۔
کچھ وہی سلسلہ صوبہ خیرپخیر کے اخباروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔آپ کوئی سا بھی اخبار اٹھایئے، پہلے صحفے کے دائیں طرف وزیراعلیٰ کے بیان کے عین نیچے ’’ٹوکیو‘‘ میں زلزلے کے جھٹکے نظر آئیں گے۔جس میں قابل ذکر صرف عہدے اور ڈگریاں ہوتی ہیں۔ ڈگریاں تقریباً پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری جتنی ہوں گی۔لیکن اس دن اچانک ہمیں ایک ایسی بات نظر آئی جس نے ہمیں چونکا دیا۔
کچھ مقامات کا ذکر تھا کہ وہاں کے شہیدوں کے خون کا ’’حساب‘‘ لیا جائے گا ۔ ہم اسے بھی قصاص وغیرہ سمجھ لیتے لیکن ذرا اوپر نظر پڑھی تو وزیراعلیٰ کا بیان تھا جس میں اسلحہ لے جانے کی بات کی گئی تھی۔ یہ تو معلوم نہیں ہو پایا کہ سومنات پر یہ کونساواں حملہ ہوگا لیکن اس میں اسلحہ لے جانے والی بات بہت ڈینجرس لگی۔
پھر معاون خصوصی کا ایک اور بیان یاد آیا کہ صوبے کے عوام، پی ٹی آئی اور صوبائی حکومت اپنے بانی کے اشارے کی منتظر ہیں۔اس اشارے کا بھی پتہ نہیں کونساواں اشارہ ہوگا کیونکہ بانی جب سے کرسی سے اتارے گئے ہیں، مسلسل اشارے پر اشارے دے رہے ہیں۔
ویسے ہم اپنی ایک اور بے خبری کا اعتراف بھی کیے لیتے ہیں، اتنے دن ہوگئے ہیں ڈی چوک وغیرہ کے مبینہ شہیدوں کا یہ جو شہادت نامہ چل رہا ہے، اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ لوگ وہاں کیا کرنے گئے تھے؟ ۔ایک لطیفہ دُم ہلا رہا ہے اور دوسرا حقیقہ۔
لطیفہ یہ ہے کہ ایک شخص نے محکمہ ریلوے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا کہ ریل گاڑی نے میری گائے کو کچل کرمار ڈالا۔ بلیک اینڈ وائٹوں کی جرح جاری تھی، ریلوے کے وکیل نے مدعی سے کہا، ذرا تفصیل سے بتاؤ، جس وقت یہ حادثہ ہوا تمہاری گائے کہاں تھی اور ریل گاڑی کہاں تھی۔ مدعی جو سوالوں سے بہت تنگ ہوچکا تھا، بولا ، جناب میری گائے اپنے کھیت میں چر رہی تھی کہ یہ ظالم ریل گاڑی نے میری گائے کو دیکھا تو پٹٹری سے اتر کر تیزی سے کھیت میں پہنچی اور میری گائے کو پکڑ کر پٹٹری پر لے گئی اور پھر بے دردی سے ٹکر مار کر ہلاک کردیا۔ہمیں خدشہ ہے کہ ان ’’شہیدوں‘‘ کا ماجرا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
بس حساب لیا جائے گا۔حساب لیے بغیر نہیں چھوڑیں گے، بانی کو جیل سے چھڑوائیں گے اور اپنے تخت پر بٹھائیں گے۔اور اب حقیقہ۔ہمارے ایک بزرگ جب کسی کے قتل کی خبر سنتے تو کہتے تھے کہ جاکر دیکھو گناہگار مقتول ہی نکلے گا۔ویسے کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ اگر پاکستانی اخباروں سے بیانات کو منہا کردیا جائے گا تو باقی کیا بچے گا۔ٹوکیو میں زلزلے کے جھٹکے۔یا یونانی دانشوروں کے کالم۔
ازمہرتا بہ ذرا دل و دل سے آئینہ
طوطی ہر جہت سے مقابل ہے آئینہ
اور ایک مرتبہ پھر سو باتوں کی ایک بات کہ بات حساب کی ہے۔