نیا سال اور تاریخ

شاید اربوں سال کا یہ چرخہ جیسے ایک پل ہے۔ سمے کا ایک پل، اسٹیفن ہاکنگ کو یہ سب وقت کا عکس نظر آتا ہے


جاوید قاضی January 05, 2025
[email protected]

وقت کے پیمانے ہم نے بنائے، صدیاں، سال، ماہ اور دن۔ وگرنہ انسانی ارتقاء سے پہلے سب موسم تھے، دھوپ و چھاؤں، صبح و شام اور رات و دن تھے۔ زماں و مکان کا وجود اور ان کے بدلاؤ دو زاویے ہیں۔ جس طرح رومی کہتے ہیں کہ ’’ افسونِ ز زماں و درز مانم، بیرونِ ز مکاں و درمکانم‘‘ (رہتا زماں میں ہوں، مگر ہوں زماں سے بڑا ، رہتا مکاں میں ہوں مگر ہوں مکاں سے بڑا)۔

فلسفیوں اور سادھو و صوفیوں نے جب دشت ِ تنہائی (Solitude) اپنائی، کہ سوچ و بچار ممکن ہو اورکچھ آگہی ملے،کچھ راز افشاء ہوں تو سب سے پہلے ان پر یہ انکشاف ہوا کہ نہ ہی یہ نفی ہے اور نہ ہی زیاں ہے، نہ ہی سود اور جو ہے کیا وہ ہے بھی کہ نہیں! اس کائنات کے گھنٹہ گھر میں کتنی صدیاں، کتنے سال اورکتنے نوری سال ہیں۔

شاید اربوں سال کا یہ چرخہ جیسے ایک پل ہے۔ سمے کا ایک پل، اسٹیفن ہاکنگ کو یہ سب وقت کا عکس نظر آتا ہے۔ بقول ایک شاعرکے ’’ جو بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے۔‘‘ جرمنی کے شاعر ہولڈرلین کہتے ہیں کہ ’’ اور جو دانا ہے وہ بلآخر حسن کے آگے جھک جاتا‘‘ جیسا کہ فیض کہتے ہیں’’ اشک آباد کی نیلی افق پہ غارت ہو گئی شام۔‘‘

اسی طرح نیا سال شروع ہوتا ہے اور سال 2024 کا غروب۔ سال طلوع ہوتا ہے اور سال غروب ہوتا ہے۔ یہ سب پیمانے ہیں وقت کے، ایک سفر ہے، لامتناعی سفر۔ سمندر رواں ہیں اور چاند ہماری دھرتی کے گرد اور ہم سورج کی گردش میں۔ ایک چرخہ ہے کہکشاں کا جو چلتا چلا جاتا ہے۔

پچھتر سالہ تاریخ ہے پاکستان کے وجود کی، مگرجو تہذیبیں، زبان اور تاریخیں یہاں آباد ہیں ان کی عمریں ہزاروں سال ہیں، مگر ہم نے کیا،کیا۔ ارغونوں، ترخانوں کی یلغاروں کو اپنی تاریخ سمجھ بیٹھے۔ ان غیر ملکی حملہ آوروں کو اپنا ہیرو بنا بیٹھے۔ ہم نے اپنی تاریخ کے پچھتر سال گنوا دیے، جو قوم کے زیرک ہوتے ہیں وہ اہل ادب اور دانشور ہوتے ہیں۔ ان کو عیاں کرنا تھا یہ سچ کہ ہم تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں اور جو اقوام اپنی تاریخ کو مسخ کرتی ہیں، ان کے ساتھ بھی وہ ہی کچھ ہوا جو ہمارے ساتھ ہوا۔ اب ان پچھتر سالوں میں ہم نے جو مسافتیں طے کیں وہ غلط ڈگر پر تھیں اور اب نہ صرف ان کو صحیح سمت میں لانا ہے بلکہ ایک نئے سفرکی شروعات بھی کرنی ہے۔

ایک ہجر ہے اور وصل بہت دور ہو جیسے اور اس کو دہلیز پر لانا ہے۔ اجداد اور تہذیبوں کو لوٹ کر واپس جانا ہے۔ ٹیکسلا، ہڑپہ، موئن جو دڑو، تہذیب آریا، راوی، جہلم ،چناب، ستلج و بیاس اور وہ سندھو۔ سکندرِ اعظم سے لے کر بعد تک جو یہاں آئے وہ سب حملہ آور تھے۔ ہم میں سے بھی بہت لوگ ہوں گے جو یا تو ہجرت کر کے آئے یا پھر انھیں حملہ آوروں کے سنگ آئے۔ پھر جب ان دریاؤں کو پار نہ کر پائے تو یہیں رچ بس گئے، اسی تہذیب کو اپنایا اور وہ ہی لباس زیب تن کیا۔

قدیم تاریخیں جیسا کہ یونانی تاریخ دان یہ لکھتے ہیں کہ اس سر زمین پر صرف دو ہی ملک تھے ایک ہند اور دوسرا سندھ۔ مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ زبانیں، تہذیب اور یہ تاریخ ان دریاؤں کے بیج سے پھیلی ہیں۔

ہماری تاریخ میں ان سورمائوں کا ذکر نہیں جو بہادری سے ان حملہ آوروں سے لڑے، برعکس اس کے ہم نے ان حملہ آوروں کو اپنا ہیرو بنایا اور اپنی آنے والی نسلوں کی کتابوں میں ان کو ہیرو بنا کر پیش کیا۔ ان باتوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ہم کیوں سوشل میڈیا پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ جھوٹی خبروں کو پھیلاتا ہے۔ ان جھوٹی خبروں کو آکسیجن ہماری جھوٹی تاریخ دیتی ہے۔

کچھ دن پہلے ہی کچھ کامریڈوں کے ساتھ بیٹھنا ہوا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی وجوہات سامنے آئیں اور اسٹالن کو عظیم گنوانے کا باب کھولا گیا۔ ان کامریڈ حضرات کے درمیان میں تاریخ کا شاگرد تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ تاریخ بڑی بے رحم ہے، وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔

1947 سے اب تک ہم نے کیا کھویا اورکیا پایا؟ ذرا ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے چلتے ہیں۔ آزادی کے پہلے دن سے ہم نے اس بات کو قبول ہی نہیں کیا کہ یہاں کے مقامی لوگوں کو بھی اقتدار میں شراکت دی جائے۔ ہم نے جمہوری اقدارکا پاس نہیں رکھا، جمہوریت کی بنیادوں کوکمزور بنا کر اس ملک سے جمہوریت کا کام تمام کردیا۔ ہم نے ون پارٹی رول متعارف کروایا۔ قراردادِ مقاصد پاس کر کے ملک کو آئین دینے سے انکارکردیا، الیکشن نہیں کروائے۔ پہلے ہی ریاستی انتخابات میں مسلم لیگ کا مشرقی پاکستان سے صفایا ہوگیا۔

 آٹھ برسوں میں آٹھ وزیراعظم آئے۔ ملک کو جو دو آئین دیے گئے وہ آئین، آئین بننے کے آفاقی تقاضوں پر پورے نہیں اتر رہے تھے۔ تو پھرکہیے کیسے نہ ہوتا ’’میرے عزیز ہم وطنوں‘‘ اور انھیں آمریتوں کی پیداوار ہیں، یہ ہمارے سیاستدان۔ ہم نے محبِ وطن اور غدار کے نئے پیمانے مرتب کیے۔ یہاں تو بس بادشاہ بیٹھا، دربار لگا اور تمام اشرافیہ نے جی حضور، جی حضور کرکے اپنا الو سیدھا کیا۔ آدھا ملک گنوا دیا اور اب یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہماری معیشت تو شاید بحال ہو جائے لیکن سیاست بدحال ہے۔ حالات کچھ اس سمت میں ہیں جمہوریت معذور، وفاق کمزور، عدلیہ کمزور اور سیاست بدحال۔

سوویت یونین میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے گوربا چوف کا ظہور ہوا۔ جوکمیونسٹ اسٹالن کے حامی تھے، وہ گوربا چوف کو ناپسند کرتے تھے، مگر قصور ان کا نہیں تھا، قصور تھا، ان ستر برسوں کا جہاں انھوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مارکس کے فلسفے کو روند ڈالا اور اقتدار خفیہ ادارے KGB کے پاس تھا۔

برصغیرکی مشترکہ تاریخ میں انگریز سامراجیت کا باب ہم نے رکھ لیا اور باقی تاریخ ہندوستان کے حوالے کردی، بشمول صوفی تحریک کے صفحے بھی جو عربوں کی تاریخ تھی۔ اب سعودی عرب بھی اپنی تاریخ کے صفحوں کو نئے سرے سے لکھ رہا ہے۔ مودی کے دورِ حکومت میں ہندوستان سے مسلمانوں کی تاریخ اوراق غائب کرنے کی واردات کی گئی۔

ہندو مذہب کو ہندوستان کا محور بنانے کی کوشش کی گئی۔ جوہندو کتھائیں ہیں، ان میں آدھی سے زیادہ کتھائیں سندھ ماترا کی ہیں یعنی ہماری ہیں، ہندو مذہب مختلف ادوارکی کتھاؤں کا مجموعہ تھا اور جب حملہ آور آئے اور اپنے ساتھ مختلف مذاہب لائے تو وہ بھی یہاں کے ہوگئے۔ یہ صدیوں کی کتھائیں ہیں جو کہ ہمارا لاشعور ہیں۔

لہٰذا سال 2025 کی قرارداد کیا ہونی چاہیے؟ عزم کیا ہو سکتا ہے، ہم نے اپنی ہی قائد کا باب بند کر دیا۔ اس ملک میں جناح پر تحقیق کرنا ممنوع ہے۔ جناح کا جنم دن بھی اب Formality کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے بچپن میں جناح کا جنم دن ہم پر ایک عکس چھوڑ جاتا تھا۔ وہ فرماتے تھے ’’ کام ، کام اور بس کام‘‘وہ سیکولر تھے۔ ہم نے جناح کی گیارہ اگست کی تقریرکو دانستہ طو ر پر غائب کردیا۔

معاشرہ مختلف زبانوں، ثقافتوں، نسلوں کا مجموعہ ہے اور ریاست کسی نسل، زبان یا ثقافت کی طرفدار نہیں ہو سکتی۔ ریاست ان سب کے بیچ ایک ریفری کی حیثیت رکھتی ہے۔ ریاست کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ ریاست کا بنیادی کام لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔پاکستان کی تاریخ تمام صوبوں کی تاریخ کا عکس ہونا چاہیے نہ کہ ان کے برعکس۔ جس طرح فارس میں رومی، جامی اور عطار ہیں اسی طرح یہاں بلھا، باہو، بھٹائی، سچل خوشحال خان خٹک اور جوانسال بگٹی ہیں۔

ہمیں غیر ملکی حملہ آوروں کی تاریخ سے اب نجات چاہیے،کیونکہ وہ ہمارے ہیرو نہیں۔ بھٹائی کے آباؤاجداد قندھار سے تشریف لائے تھے اور قلندر کے آباؤ اجداد مزارِ شریف سے۔ رومی کے آباؤاجداد مزارِ شریف، بلخ سے ہجرت کر کے کونیہ آئے۔ رومی کی شاعری فارسی میں ہے اور ان کی شاعری ترکی سے ایران میں زیادہ مقبول ہے۔ علامہ اقبال ایران میں فارسی کے بہت بڑے شاعر مانے جاتے ہیں۔ بھٹائی فارسی کے استاد تھے لیکن انھوں نے شاعری سندھی زبان میں کی جو یہاں کے لوگوں کی زبان تھی۔

ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہے اور ان غیر ملکی حملہ آوروں کو اپنا ہیرو ماننے سے انکارکردیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں