کتابیں انسانی تہذیب کی بنیاد ہیں، وہ روشن چراغ ہیں جو نہ صرف ماضی کی اندھیری گلیوں کو روشن کرتی ہیں بلکہ آنے والے کل کے خوابوں کو بھی حقیقت میں بدلنے کی راہ دکھاتی ہیں۔پہلے کالم میں ہم نے ان کتابوں پر بات کی جنھوں نے عالمی سطح پر انسانیت کے شعور اور فکر کو ایک نئی سمت دی۔
الہامی کتابیں، افلاطون کی’’ریپبلک‘‘اور مارکس و اینگلز کا ’’کمیونسٹ مینیفیسٹو‘‘ان میں شامل تھیں۔ دوسرے مضمون میں ہم نے پاکستان میں ترقی پسند ادب کے معماروں کا تذکرہ کیا جنھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف استحصالی نظام کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ فکری شعور کی شمع بھی جلائی۔
آج ہم ہندوستان کا رخ کرتے ہیں وہ سرزمین جس کی ادبی روایت کئی تہذیبوں زبانوں اور فکر کے امتزاج سے عبارت ہے۔ ہندوستان کے وہ عظیم لکھاری جنھوں نے اپنے قلم کی طاقت سے انسانی شعور کو جھنجھوڑا اور سماج کی جڑوں کو ہلایا، وہ اس خطے کا سرمایہ ہیں۔
یہ ادیب نہ صرف ہندوستان بلکہ برصغیر کے ادبی ورثے کے معمار ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی ہماری فکری زندگی کو متاثر کرتی ہیں اور سوال اٹھانے، سوچنے اور سماجی انقلاب کی ترغیب دیتی ہیں۔پریم چند دیہات کی زندگی کے سب سے بڑے ترجمان رہے ہیں۔ انھوں نے سماجی ناانصافی پر اپنا قلم اٹھایا اور لوگوں کے دکھ درد کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔
پریم چند اردو اور ہندی ادب کی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے کسانوں مزدوروں اور نچلے طبقے کی مشکلات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔ ان کے ناول’’گؤدان ‘‘اور کہانی ’’کفن‘‘ صرف ادب کے شاہکار نہیں بلکہ ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کا حقیقی عکس ہیں۔
پریم چند نے اپنی کہانیوں میں غربت، جاگیرداری نظام اور سماجی ناانصافی کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ قاری خود کو ان کرداروں کے قریب محسوس کرتا ہے۔’’گؤدان‘‘ جسے ہندوستانی ناول نگاری کی معراج کہا جاتا ہے، کسانوں کے دکھ اور جاگیردارانہ نظام کے ظلم و استحصال کی ایک دل گداز کہانی ہے۔ پریم چند نے ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ایک ایسا آئینہ بنایا جس میں سماج اپنی خامیاں اور کمزوریاں دیکھ سکے۔
رابندر ناتھ ٹیگور محبت اور روحانیت کے شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں امن اور سلامتی پہ زور دیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی ادب کا ایک درخشاں ستارہ ہیں۔ ان کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘نے انھیں نوبل انعام کا حقدار بنایا۔
ٹیگور کی شاعری انسانیت محبت اور روحانیت کا نغمہ ہے۔ ان کی تحریریں ایک ایسے انسان کی تصویر پیش کرتی ہیں جو نہ صرف اپنے اندر کے تضادات کو سمجھتا ہے بلکہ کائنات کے ساتھ ہم آہنگی بھی پیدا کرتا ہے۔ٹیگور کے الفاظ ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ ادب کی سرحدیں نہیں ہوتیں اور انسانوں کو جوڑنے کے لیے محبت اور امن سے بہتر کوئی راستہ نہیں۔ ان کی تخلیقات برصغیر کے ادب کا وہ سرمایہ ہیں جو ہمیشہ ہمیں انسانیت کے رشتے کی اہمیت کی یاد دلاتی رہیں گی۔
قرۃ العین حیدر نے جس انداز میں تاریخ کی تصویر کشی اپنی تحریروں میں کی لگتا ہے کوئی مصورہ اپنی تصویر میں رنگ بھر رہا ہو۔ قرۃ العین حیدر کا نام اردو ادب کے بلند ترین ستاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے ناول’’آگ کا دریا‘‘نے تہذیب تاریخ اور انسانی شعور کے تسلسل کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا۔ یہ ناول تقسیم ہند کے زخموں تہذیبوں کے تصادم اور انسان کے روحانی سفر کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کی نظیر اردو ادب میں کم ہی ملتی ہے۔
قرۃ العین حیدر نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ تاریخ کو محض ماضی کا قصہ سمجھنے کے بجائے اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی تحریریں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہم اپنی تہذیبی وراثت کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اسے کس طرح اپنے حال اور مستقبل کا حصہ بناتے ہیں۔
کرشن چندر انسانیت کے علمبردار تھے۔ وہ ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھنے تھے جہاں طبقاتی فرق نہ ہو اور ہر انسان کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔کرشن چندر کی تحریریں محبت انسانیت اور سماجی انصاف کے نغمے ہیں۔ ان کے افسانے جیسے ’’مہالکشمی کا پل‘‘اور’’کالو بھنگی‘‘سماجی مسائل کو ایسی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں درد کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔
کرشن چندر نے اپنی کہانیوں میں غربت طبقاتی نظام اور انسانی رشتوں کی نزاکت کو موضوع بنایا۔ ان کی تحریریں ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرتی ہیں جہاں انسانیت کی عظمت ہر قسم کے تعصب اور نفرت سے بالاتر ہے۔راجندر سنگھ بیدی حقیقت نگاری کے ماہر تھے۔ ان کی تحریر میں جو سچائی اور حقیقت کی جھلک ہے وہ کسی اور لکھاری کے ہاں نہیں نظر آتی۔
راجندر سنگھ بیدی اردو ادب کے ان عظیم افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنھوں نے سماجی حقیقتوں کو بڑی گہرائی اور سچائی کے ساتھ بیان کیا۔ ان کا افسانہ ’’لاجونتی‘‘تقسیم ہند کے اثرات اور انسانی رشتوں کے نازک توازن کو بڑی مہارت سے پیش کرتا ہے۔ بیدی کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ادب کی اصل طاقت اس کی صداقت میں ہے۔ترقی پسند تحریک اور اس کے اثرات ادب میں ہمیں ملتے ہیں اور ایک ایسی دنیا کا خواب پیش کرتے ہیں جہاں انسان بلا تفریق ایک بہتر زندگی بسر کر سکے۔
ہندوستان میں ترقی پسند تحریک نے ادب کو ایک نیا رخ دیا۔ اس تحریک کے تحت لکھنے والے ادیبوں اور شعرا نے اپنے قلم کے ذریعے سماجی ناہمواریوں استحصال اور جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی اور مجروح سلطانپوری جیسے شعرا نے اپنی تخلیقات کے ذریعے ایک ایسی دنیا کا خواب پیش کیا جہاں مساوات اور انصاف کا بول بالا ہو۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی فلاح وبہبود پہ توجہ دی جائے اور عام انسان کی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کی جا ئے۔ آج جب دنیا نفرت، تعصب اور شدت پسندی کے اندھیروں میں گھری ہوئی ہے ،ان ہندوستانی ادیبوں کی تحریریں پہلے سے زیادہ اہم ہو گئی ہیں۔ ان کی تخلیقات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ادب کا اصل مقصد انسانیت کی فلاح اور سماجی شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ ادیب اور ان کی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ علم محبت اور انسانیت کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔