پاک افغان تعلقات: تاریخی تناظر اور موجودہ چیلنجز

پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا، اس کے باوجود افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں


ضیا حمید عباسی January 05, 2025

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ یہ تعلقات نہ صرف خطے میں امن و استحکام کے ضامن ہوتے ہیں بلکہ تجارتی مواقع اور ثقافتی تبادلے کے دروازے بھی کھولتے ہیں۔

پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر کئی دہائیوں سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ تاہم افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ پیچیدگیوں اور چیلنجز کا شکار رہے ہیں۔ ان تعلقات میں تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے، جو وقتاً فوقتاً ان میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنتے رہے ہیں۔

1947 میں پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی۔ اس مخالفت کی بنیادی وجہ ’’ڈیورنڈ لائن’’ تھی، جو 1893 میں برطانوی حکومت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت بین الاقوامی سرحد قرار پائی تھی۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے افغانستان نے اس سرحد کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور ’’پشتونستان‘‘ کے نام پر پاکستان کے پشتون اکثریتی علاقوں پر نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ ان علاقوں میں مداخلت کرتے ہوئے متعدد پشتونوں کو ریاست کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ، افغانستان نے ان عناصر کو ہر ممکن امداد فراہم کی جو پاکستان کی ریاست کے مخالف تھے۔ یہی تنازعات ابتدا سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث بنے اور بدقسمتی سے آج تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاسکا۔

1970 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ 1973 میں سردار داؤد کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلقات میں تلخی بڑھ گئی۔ 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت نے ان تعلقات کو ایک نیا موڑ دیا۔ پاکستان نے افغان مجاہدین کی بھرپور حمایت کی، جس کے نتیجے میں سوویت یونین کی پسپائی ہوئی اور بعد میں طالبان حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اگرچہ طالبان کے قیام سے تعلقات میں وقتی بہتری آئی، لیکن افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان میں سماجی، معاشی، اور سیکیورٹی مسائل پیدا کیے۔

2001 میں نائن الیون کے واقعات اور اس کے بعد امریکا کی افغانستان میں مداخلت نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل کردیا۔ اس عرصے میں بھارت نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ تیز کردیا۔ بھارت نے افغان سرزمین پر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کیے، جس کے نتیجے میں پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دیں۔ تقریباً 70,000 پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں، جن میں فوجی اہلکاروں سے لے کر عام شہری شامل ہیں۔ یہ قربانیاں امن کی خواہش اور اپنی سرزمین پرسکون قیام کی علامت تھیں۔ معاشی طور پر پاکستان کو 126 بلین ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جو نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی معطلی اور بے روزگاری میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا بلکہ تعلیمی نظام اور عوامی سہولیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے باوجود پاکستانی قوم نے ہر چیلنج کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا۔

2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی اور بھارت کا اثر و رسوخ کم ہوگا۔ تاہم، یہ امیدیں پوری نہ ہوسکیں۔ سرحدی تنازعات میں اضافہ ہوا اور پاکستان کو مسلسل سرحد پار سے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حملوں نے پاکستان کی سیکیورٹی کےلیے سنگین خطرات پیدا کیے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سرحدی علاقوں، خصوصاً جنوبی وزیرستان اور اپر کرم میں، دہشت گرد حملوں نے ایک بار پھر سیکیورٹی خدشات کو جنم دیا۔ ان واقعات میں پاکستان کے کئی سپاہیوں نے شہادت پائی، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستان کو اب بھی خوارج اور دہشت گرد عناصر کے خلاف لڑنا پڑ رہا ہے۔

وقت کے ساتھ پاک افغان تعلقات میں خرابی کے اسباب کم ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے گئے ہیں، اور ہر گزرتے دور کے ساتھ ان میں شدت آتی گئی ہے۔ موجودہ تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجوہات میں نظریاتی اختلافات نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے مابین نظریاتی ہم آہنگی پاکستان کی حکومتی پالیسیوں سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام تر سفارتی اور عملی کوششوں کے باوجود افغان طالبان، پاکستانی طالبان کی حمایت ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کا باعث ہے بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

موجودہ دور میں جہاں حکومتی سطح پر تعلقات کشیدہ ہیں، وہیں عوامی سطح پر بھی نفرت کا رجحان نمایاں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو حالات کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا، اس کے باوجود افغان عوام میں پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات کیوں پائے جاتے ہیں؟

پاکستان اور افغانستان دونوں معاشی طور پر ایک دوسرے کےلیے اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کی معیشت اتنی مضبوط نہیں کہ مزید تنازعات کا بوجھ اٹھا سکے۔ تعلقات کی بہتری کےلیے سب سے اہم اقدام اعتماد کی فضا کو بحال کرنا ہے۔ موجودہ تعلقات زیادہ تر سیکیورٹی کے اصولوں پر مبنی ہیں، جو عوامی سوچ پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ اگر تجارت اور معیشت کو تعلقات کی بنیاد بنایا جائے تو نہ صرف عوامی سوچ میں مثبت تبدیلی آئے گی بلکہ دونوں ممالک کی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے معیشت، تجارت، اور ثقافت کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ تجارت کے ذریعے عوام کے درمیان روابط کو فروغ دیا جاسکتا ہے، جس سے خطے میں امن اور استحکام ممکن ہوسکتا ہے۔

دونوں ممالک کے پاس تعلقات کو ایک نئی سمت دینے کے مواقع موجود ہیں۔ باہمی احترام، تعاون، اور امن کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ان تعلقات کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اگر سرحدی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اور عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے تو یہ تعلقات خطے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاک افغان تعلقات میں بہتری کےلیے مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرنا ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک کو تاریخی، نظریاتی، اور سیاسی اختلافات بھلا کر ثقافتی تبادلوں، تعلیم، اور تجارت کے فروغ سے عوامی سطح پر اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ یہ تعلقات خطے کے امن، استحکام اور ترقی کےلیے اہم ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو پس پشت ڈال کر خلوص نیت سے مسائل کے حل کےلیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ دونوں ممالک ایک روشن اور پرامن مستقبل کی طرف گامزن ہوسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں