امن کو تباہ کرنے کی سازش

پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر ابھر کر سامنے آئی ہے۔


ایڈیٹوریل January 06, 2025

کرم میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملے کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے، ٹل پارا چنار شاہراہ ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ 80 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ تاحال متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے کے نتیجے میں،6افراد شہید، ایس پی انویسٹی گیشن ونگ کوئٹہ سمیت 40 افراد زخمی ہوگئے ہیں۔

عرصہ دراز سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان دہشت گردی کی زد میں ہیں، پاکستان میں دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہوتی، یہ دہشت گرد کہاں سے چلے آ رہے ہیں،جو تمام تر کارروائیوں اور قربانیوں کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے اور ان کے سہولت کار کون ہیں؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ازحد ضروری ہے۔

پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاراچنار میں امن کے قیام پر توجہ مرکوزکرتے ہوئے کرم کے علاقے میں رہنے والے قبائل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کے بعد، اس شہر کی طرف جانے والی سڑکوں کو 3 ماہ کے بعد دوبارہ کھول دیا جانا تھا، لیکن پولیس فورسز اور حکومتی اہلکاروں کی موجودگی میں امدادی قافلے کی نقل و حرکت کے دوران ایک سیکیورٹی حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے پارا چنار کے لوگوں کو امدادی سامان کی ترسیل روک دی گئی ہے۔

حالیہ مہینوں میں یہاں خونریز تنازعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے پارا چنار کے راستے میں ہونے والے تازہ ترین واقعے کی مذمت کی ہے اور پارا چنار میں جنگ بندی کے معاہدے کو توڑنے کے لیے سیکیورٹی مخالف تحریکوں اور تخریب کاروں کو خبردارکیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ، جنھیں پارا چنار شہر میں سیکیورٹی کے قیام کے لیے اس صوبے کا اعلیٰ ترین انتظامی عہدیدار سمجھا جاتا ہے، نے بھی اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو کبھی ختم نہیں ہونے دیں گے۔ خیبر پختو نخوا گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ دہشت گردی اور بدامنی کا شکار رہا ہے۔ شاید ہی کوئی خاندان ایسا رہ گیا ہو جس کے گھروں سے جنازے نہ نکلے ہوں۔

عوام سے لے کر اعلیٰ پولیس افسران اور ہائی پروفائل سیاستدان صوبے میں لگی اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں۔ فوج سیکڑوں جوان قربان کرچکی ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد ہونے والے آپریشنز کے نتیجے میں کچھ برس لوگوں نے امن و امان کے حوالے سے سکھ کا سانس لیا تھا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق اور ریاست کو جمہوری ڈومین میں رہتے ہوئے کم از کم تحریک انصاف کو اس ایک نکاتی ایجنڈا پر مذاکرات کی میز پر لانا پڑے گا اور ان کو یہ احساس دلانا پڑے گا کہ امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے اور خیبر پختونخوا کے حالات پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا۔دوسری جانب بلوچستان میں سی پیک کے راستے کے ساتھ ساتھ منتقلی، تنازع کے بدلتے ہوئے محرکات کی جانب واضح اشارہ ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان عسکریت پسندوں کا قدرتی وسائل کے غیر منصفانہ استعمال، لاپتہ افراد اورکم انسانی ترقی کا بیانیہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پیچھے کارفرما عوامل کی عکاسی نہیں کرتا، اگر ایسا ہوتا تو ترقیاتی پیکیجز میں بہتری کے ساتھ دہشت گردی میں کمی آنی چاہیے تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ سی پیک کو ختم کرنا ان دہشت گرد گروہوں کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔ یہ عدم استحکام بلوچستان کو اپنے وسائل کے مکمل استعمال سے روکتا ہے اور امریکا اور بھارت جیسے بیرونی عناصرکو اسٹرٹیجک فائدہ پہنچاتا ہے۔

امریکا کے نزدیک غیر مستحکم بلوچستان سی پیک کی کامیاب تکمیل اور پاک چین مشترکہ جغرافیائی مفادات میں رکاوٹ ہے اور دہشت گرد گروپوں کی حمایت کے ذریعے پاکستان اور چین کا مقابلہ کرنا بھارت کے جغرافیائی سیاسی مفاد میں ہے۔ بلوچستان جغرافیائی سیاسی معرکہ آرائی کا میدان بن چکا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی بیرونی طاقتوں کے تزویراتی مفادات کو پورا کرتی ہے جس کا مقصد چین اور سی پیک کو نقصان پہنچانا ہے۔ مجموعی طور پر شکایات کی داستان بلوچستان میں جغرافیائی سیاسی مسابقت کا احاطہ کرنے کے لیے ایک پہلوکا کام کرتی ہے۔

دشمن قوتوں کے حمایت یافتہ قوم پرست جھوٹے بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف عوامی جذبات بڑھکانے کے لیے پھیلائے جاتے ہیں۔

یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ نسبتاً کم انسانی ترقی ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، لہٰذا جغرافیائی سیاسی مسائل کو تزویراتی سطح پر حل کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی، آپریشنل سطح پر سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک جامع نقطہ نظرکی ضرورت ہے۔ پس یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بلوچوں کی محرومی کا نعرہ غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اگرچہ بلوچستان کے معاملے میں ہماری قو می و سیاسی قیادت اور ریاست سے کچھ کمیاں،کوتاہیاں ضرور ہوئیں مگر متعلقہ ادارے ان کا ازالہ کرنے میں کوشاں ہیں۔

 حالیہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بلوچستان میں جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی، خیبر پختونخوا میں موجود دہشت گرد گروپوں کو نکیل ڈالنے کی حکمت عملیکو مزید موثر بنانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔

ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد اور علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی جن میں بی ایل اے، مجید بریگیڈ، بی ایل ایف اور براس جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔درحقیقت انتہا پسندی کا رویہ ایک مائنڈ سیٹ ہے اس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا یقیناً ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے ہمیں نوجوانوں کو انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے رجحان سے بچانے اور آگاہ کرنے کے لیے فوکس ان کی تربیت گاہیں اور ٹھکانے ہونے چاہئیں۔ آج کے نوجوان کی تعلیم اور تربیت اگر صحیح پیمانے پر کردی جائے اور اس کی ذہن سازی اس طرح سے کی جائے کہ اس کے ذہن کے اندر جو خود ساختہ تعصبات، نفرت اور برتری کا زہر بھر دیا گیا ہے، کسی طرح نکالنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے تو پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، کیونکہ کسی بھی ملک میں تبدیلی کا آغاز اس کے نوجوانوں کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

اس وقت پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد ساٹھ فیصد کے قریب بتائی جاتی ہے اور یہی وہ سرمایہ ہے جس نے آگے چل کر ملک کی زمام اقتدار سنبھالنی ہے۔ یہ اسی وقت بہترکارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے جب ان کا ذہن ہر طرح کے تعصبات، نفرت اور دوسروں سے بدگمانی کے حوالے سے پاک ہوگا۔ ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کے معمولات کے ساتھ اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔ دہشت گردی فرقہ واریت یا انتہا پسندی صرف حکومت یا فوج کا مسئلہ نہیں ہے، ان مسائل کا شکار اس وقت پورا ملک ہے۔

ایک طرف جہاں ہزاروں جانیں قربان ہو چکی ہیں تو دوسری جانب فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا زہر ذہنوں میں اتارا جا رہا ہے اور یہی وہ محاذ ہے جس پر جہاد کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہم آج اگر اپنے نوخیز ذہنوں کو اس آلودگی جو انھیں متاثرکر رہی ہے کی دست برد سے بچا لیتے ہیں تو ہمارے مستقبل کا سرمایہ محفوظ اور پاکستان اس لعنت سے بھی جان چھڑا لے گا۔انتہا پسندانہ مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے نصابی بیانیے کو بدلنے کی ضرورت ہے آج ایسے جدید نصاب کی ضرورت ہے جو نئے تقاضوں کے ہم آہنگ ہو، اساتذہ کا سائنسی ذہن ہونا اور انتہا پسندی سے دور ہونا ضروری ہے۔ نصاب میں تشدد کے نقصانات کے بارے میں ہر سطح پر ابواب شامل ہونے چاہئیں تاکہ بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں اس بارے میں شعور پیدا ہوسکے۔

سب سے اہم معاملہ ریاستی اداروں کے بیانیہ کی تبدیلی کا ہے۔ حقائق کی بنیاد پر ایک روشن خیال بیانیہ ہی نوجوانوں میں انتہا پسندی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر ہر سطح کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔ کسی بھی طرح کی تبدیلی لانے کے لیے تعلیمی اداروں اور نظام تعلیم پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، جب کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر بھی ایسے پروگراموں کو شروع کیا جائے جو آج کے بچے اور نوجوان کا ذہن بدل سکیں۔

ان افراد اور اداروں کی تحسین کی جانی اور ساتھ دیا جانا چاہیے جو معاشرے سے نفرت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔دہشت گرد ی کی کوئی بھی شکل ہو وہ قابل نفرت اور سزا کی مستحق ہے، دہشت گرد خوف اور ہراس پیدا کر کے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر نپی تلی حکمت عملی کو اپناتے ہیں جس سے بے قصور عام شہری، بچے، بوڑھے اور عورتوں کو بلا تمیز نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ان کا اصل ہدف کوئی اور ہوتا ہے۔

 مقصد وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور اپنا رعب جسمانی اور نفسیاتی طور پر پھیلانا ہوتا ہے، دہشت گرد چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی موجودگی کو محسوس کریں اور ان پر دہشت طاری رہے، یہ لوگ قابل نفرت ہیں یہ معافی کے کسی طور مستحق نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم قومی سوچ میں تبدیلی اور عوام کو ساتھ شامل کر کے ہی جیت سکتے ہیں جس کے لیے آج ہمیں پھر نیشنل ایکشن پلان کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں