اُڑان پاکستان

نامساعد حالات کے باوجود اس نے ہمیشہ کم وقت میں بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کیے


[email protected]

اس میں کوئی شک نہیں کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور حکومت کے بعد اگر اس ملک میں کچھ ترقیاتی کام ہوئے ہیں تو ان میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت سے رہا ہے۔نون حکومت کو جب جب اقتدار ملا چاہے وہ دو تین سال کا ہی کیوں نہ ہو،اس نے اس وطن عزیز میں بہت سے ترقیاتی کام کیے ہیں، یہ اعزاز ہماری کسی اور سیاسی پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ اس معاملے میں اس کاٹریک ریکارڈ دوسری تمام سیاسی پارٹیوں سے اچھا اوربہتر ہے۔

نامساعد حالات کے باوجود اس نے ہمیشہ کم وقت میں بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کیے اورکوشش بھی کی کہ انھیں وہ کم سے کم وقت میں پائے تکمیل تک پہنچاپائے۔ وہ پروجیکٹ اگر ایک دور میں نامکمل رہ گئے تو اس نے انھیں اپنے دوسرے دور میں مکمل کرلیے۔سارے ملک میں موٹر وے کا جال بچھانے کا خواب میاں نوازشریف نے اپنے پہلے دور اقتدار میں دیکھا تھااورلاہور سے اسلام آباد تک پہلی موٹر وے تمام مالی مشکلات کے باوجود شروع کی۔

انھیں اس وقت مخالفوں کی جانب سے بڑی تنقید کا سامنا بھی رہااورہمارے بہت سے ذہین اورسمجھدار لوگوں نے بھی اس اہم منصوبے کو غیرضروری اور فضول خرچی قراردیا۔مگر آج وہ سارے نقاد اور مخالفین اس منصوبے سے نہ صرف مستفید ہورہے ہیں بلکہ انکی افادیت کے بھی قائل ہوگئے ہیں۔ ہم دنیامیں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں بڑے بڑے روڈ اورشاہراہیں دیکھ کر اپنی مفلسی اورکم نصیبی پر افسوس ہی کیاکرتے ہیں۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی آج سفر ایسی خوشنما سڑکوں کے ذریعے کیاجاتاہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی آج ایسی شاہراہیں بناکر ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگاہے۔ اِن شاہراہوں کے علاوہ اس نے صنعتی میدان میں بھی بہت ترقی کی ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا جب ہم سنہ ساٹھ کی دہائی میں کئی میدانوں میں اس سے آگے نکل چکے تھے اورنوے کی دہائی تک ہمارا روپیہ اسکے روپیہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم تھا۔ مگر بار بار کی حکومتی تبدیلی نے ہم سے ہمارا یہ اعزاز بھی چھین لیااورہمیں اس کے مقابلے میں بہت پیچھے کردیا۔آج اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم سے کہیں زیادہ ہیں اور مسلسل تیزی کے ساتھ بڑھ بھی رہے ہیں۔

ہم سے علیحدہ ہونے والا مشرقی پاکستان بھی گزشتہ پچاس برسوں میں ہم سے بہت آگے نکل گیا۔ ہم آج اپنے اِن پڑوس ممالک سے بھی نظریں ملاکربات نہیں کرسکتے ہیں۔ ہماری یہ درگت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کسی دشمن نے نہیں بنائی ہمارے اپنے لوگوں نے بناڈالی ہے۔

شہباز حکومت نے اپنے ایک وزیر برائے منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کی مدد سے ایک بڑے ترقیاتی منصوبے  'اُڑان پاکستان'کااعلان گزشتہ دنوں کیاہے جس میں اگلے پانچ سالوں میں ملک کو ترقی دیکر ایک مضبوط راہ پر ڈالنے کے خدوخال ظاہرکیے گئے ہیں۔یہ احسن اقبال وہی شخص ہیں جنھوں نے نون لیگ کے دوسرے دور اقتدار میں بھی وژن پاکستان 2025کے نام سے ایک ایسا ہی روشن خیال منصوبہ پیش کیاتھاجو جنرل مشرف کے ٹیک اوور کی وجہ سے پائے تکمیل تو کیاشروع بھی نہ ہو سکا اورآج 2025 بھی آگیا ۔

ہم ترقی کرکے آگے جانے کی بجائے انتہائی زبوں حالی اورپستی میں جاگرے۔اس دوران ہم نے دوسروں کی دہشت گردی کی جنگ میں اپنا بہت کچھ گنوابھی دیا۔ اپنے بے تحاشہ مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ہم نے بہت ساجانی نقصان بھی بھگتاہے۔ اورآج بھی اس جنگ کے اثرات سے نبردآزما ہیں۔اُڑان پاکستان کے بارے میں ابھی بہت سے چیزیں واضح نہیں ہیں۔

وزیراعظم نے ابھی صرف یہ بتایاہے کہ زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اورصنعتی ترقی سے ہم اپنے آپ کو ایک ترقی کرتے خوشحال پاکستان کی راہوں پر گامزن کردینگے۔ اللہ کرے ایساہی ہو۔ لیکن اس ملک کو جوآج بھی اندرونی اوربیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے اس کے لیے یہ ٹارگٹ حاصل کرناکوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ہماری اسلامی اورایٹمی شناخت ہمارے دشمنوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔وہ ہروقت ہم سے ہماری یہ حیثیت چھین لینا چاہتے ہیں۔

 سی پیک بھی ہمارا ایک ایساہی شاندار ترقیاتی منصوبہ تھا اورہے بھی لیکن اس کو تہہ وبالا کرنے کے لیے جو سازشیں کی گئی اُن سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔اس منصوبے کو اگر روکانہ جاتا تو آج ہم ایک خوشحال پاکستان کی طرف تیزی سے بڑھ چکے ہوتے اورشاید ہمیں اڑان پاکستان منصوبہ پیش کرنے کی بھی ضرورت باقی نہ رہتی۔سی پیک منصوبہ کی رفتار کو جس طرح سلوڈاؤن کیاگیا اس کی وجہ سے ہمارا دوست ملک چین بھی ہم سے مایوس اورخفا ہوچکا ہے۔

وہ اب اُس گرم جوشی سے اس منصوبے کو لے کر چل نہیں رہا جیسے وہ شروعات میں چل رہاتھا۔دوسری جانب ہمارے یہاں اس کے باشندوں کے ناگہانی قتل کی وارداتوں نے بھی اسے منصوبے پر نظرثانی کرنے پرمجبور کردیا ہے۔اب جوکچھ بھی کرنا ہے ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ ہم اگر اپنا گھر درست نہیں کرینگے تو پھر یہاں کوئی بھی سرمایہ کاری کے لیے نہیں آئے گا۔اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنا گھر کیسے درست کرپائیں گے؟کیا ہم اس قابل ہیں کہ اپنے یہاں بیرونی مداخلت روک سکیں۔ یہاں توکسی ایک حکمراں کی حکومت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا ہے۔ہر دوچار برس بعد ہمارے عوام خود اپنی حکومت کے خلاف ہوجاتے ہیں۔

انھیں تواپنے اچھے اوربرے کی بھی تمیز نہیں ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کون سا حکمراں ان کے لیے بہتر ہے ۔ وہ بہت جلد اپنے حکمرانوں کی شکل سے اکتاجاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے سامنے بھارت کی مثال موجود ہے ۔ وہاں نریندر مودی دس سال گزار کر اب تیسری بار منتخب ہوچکا ہے لیکن وہاں کے عوام نے اسے تمام خامیوں کے باوجود ابھی تک مسترد نہیں کیاہے۔یہی حال بنگلادیش کابھی تھا۔ محترمہ حسینہ واجد کو وہاں کے عوام نے 2009 ء سے مسلسل برسراقتدار رکھا جس کانتیجہ بھی انھیں ترقی کی صورت میں ملااوروہی بنگلادیش قلیل عرصہ میں ہم سے بہت آگے نکل گیا۔ اسی طرح ترکیہ کے طیب اردگان کو لے لیجیے وہ 2001 سے حکومت چلارہے ہیں ۔

وہاں کے عوام نے انھیں ابھی تک مسترد نہیں کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بار بار کی تبدیلی سے حکومتی پالیسیاں کبھی بھی کامیابی سے ہمکنارنہیں ہواکرتیں۔ منصوبوں کو تکمیل کے لیے وقت درکارہوا کرتاہے۔ہم نے 1988 سے اب تک کتنے وزیراعظم بدل ڈالے اورکسی کو بھی اتنا وقت نہیں دیاکہ وہ اپنے منصوبوں کو مکمل کرسکے۔وژن پاکستان 2025 بھی اسی وجہ سے فیل ہوگیا اوراب یہ اُڑان پاکستان کی بھی شاید خیر نہیں اگر ہم اپنی پرانی عادت سے باز نہ آئے۔

شہبازحکومت نے دس ماہ میں بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں،انھیں  اگر ان کے مکمل پانچ سال سکون سے دے دیے جائیں تو یقینا ہم اپنی مشکلات سے باہرنکل پائیں گے ۔جس طرح اُنھوں نے بطوروزیراعلیٰ پنجاب اپنے ادوار میں شاندار کارکردگی دکھائی تھی وہ بطور وزیراعظم بھی شاید ایسی کارکردگی دکھا پائیں بشرط کہ انھیں موقعہ دیاجائے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ لینے کامشغلہ ہمیںاب چھوڑنا ہوگا۔ بہت ہوچکا کسی ایک سیاستدان کو تو اپنا دور مکمل کرنے دیاجائے۔ کارکردگی کا صحیح اندازہ تو اسی وقت لگایاجاسکتاہے جب ہم اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں