سیاسی صورت حال میں غیر یقینی کیوں؟

وفاقی حکومت کے پیپلز پارٹی کے ساتھ جاری رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں


[email protected]

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے اور پیپلز پارٹی کے رہنما متعدد بار وفاقی حکومت کے پیپلز پارٹی کے ساتھ جاری رویے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں جس پر ایک بار پھر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کے پاس جا کر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کے سب سے زیادہ قریبی رفیق اور عزیز وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو ملاقات کرنا پڑی اور دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں پیپلز پارٹی اور حکومتی کمیٹیوں کی ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا۔

جس سے یوں لگتا ہے کہ حکومتی کمیٹیوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے اور مشاورت نہیں ہو رہی ہے اور (ن) لیگی حکومت تن تنہا ہی اہم فیصلے کر رہی ہے اور اپنی سب سے اہم حلیف پیپلز پارٹی سے مشاورت کرتی ہے نہ بلاول بھٹو کو اعتماد میں لیتی ہے جس کا اظہار بلاول بھٹو بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تحفظات کے باوجود حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی سندھ حکومت کے بعض معاملات پر وزیر اعظم کو خط لکھا ہے جس میں سندھ کے پانی کے مسئلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس مقررہ آئینی مدت میں منعقد نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے گفتگو میں یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے وفاق سے متعلق امور متعلقہ فورم پر اٹھائیں گے اور وفاقی حکومت کو بلوچستان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے بھی بہت شکایات ہیں اور اس کا موقف ہے کہ پنجاب میں جو پاور شیئرنگ فارمولا دونوں پارٹیوں میں طے پایا تھا اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ پنجاب حکومت کے اقدامات پر پی پی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب بھی تنقید کرتے رہتے ہیں جس کا جواب پنجاب حکومت اس طرح دیتی ہے جیسے وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو اور گورنر پنجاب حلیف ہیں۔

ماضی میں رانا ثنا اللہ جب پنجاب کے وزیر تھے تو وہ بھی صدر آصف علی زرداری اور گورنر پنجاب کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ کسی بھی لیگی وزیر پنجاب کو اپنی حلیف پیپلز پارٹی کے گورنر سے متعلق ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے اور انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ آصف زرداری صدر مملکت ہیں تو وزیر اعظم شہباز شریف ہیں اور وفاق میں دونوں مل کر چل رہے ہیں۔ پنجاب کے گورنر جن کو پہلی بار پنجاب میں اہم عہدہ ملا ہے وہ بھی اپنی صوبائی حکومت کو رگیدتے رہتے ہیں ۔

کے پی میں گورنر اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے درمیان سیاسی رنجش سمجھ میں آتی ہے مگر پنجاب میں پی پی کے گورنر کا رویہ وفاق جیسا ہی ہے جہاں (ن) لیگ اور پی پی دونوں کی مشترکہ حکومت ہے۔ وفاق میں پی پی کے وزیر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وفاق مکمل طور پر مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جہاں ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا عہدہ پی پی کے پاس ہے ۔

سینیٹر فیصل واؤڈا مسلسل وفاقی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور انھوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ بالاتروں کو وفاقی حکومت کی حمایت ترک کرنا پڑے گی کیونکہ (ن) لیگ حکومت کی کارکردگی بالاتروں کے نزدیک اطمینان بخش نہیں ہے اور حکومت پی ٹی آئی کے سلسلے میں وہ کچھ نہیں کر سکی جس کی توقعات بالاتروں کو حکومت سے تھیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بالاتروں سے پی ٹی آئی کشیدگی کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو پہنچ رہا ہے اور (ن) لیگ کی حکومت بالاتروں کے خلاف پی ٹی آئی کی ہرزہ سرائی روکنے میں ناکام ہے جب کہ بالاتر حکومت کے ساتھ ہیں مگر حکومت ان کا دفاع نہیں کر پا رہی جیسا ہونا چاہیے وہ نہیں ہو رہا۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ بالاتر اور حکومت ایک پیج پر ہے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم بھی یہی دعوے کیا کرتے تھے مگر ان کی اپنی سیاسی ناپختگی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے بالاتر ان کی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوگئے تھے اور پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم میں فرق ہے مگر ان کی حکومت وہ کچھ نہیں کر پا رہی جو اسے کرنا چاہیے۔

موجودہ حکومت میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف جو 188 مقدمات درج ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ عدالتوں میں جاتے ہی اڑ جاتے ہیں اور بانی کی سزا کے خلاف جو فیصلے بانی کے حق میں آئے ان کے خلاف حکومت ہائی کورٹ نہیں گئی جس سے بانی کو سیاسی فائدہ اور حکومت کی بدنامی الگ ہوئی۔ حکومت کی جو غیر یقینی صورت حال ہے اس کی ذمے دار حکومت اور مسلم لیگ دونوں ہیں۔ (ن) لیگ اپنی اہم حلیف پی پی سمیت کسی کو بھی مطمئن نہیں کر پارہی۔ سندھ میں متنازع کینال کے مسئلے پر پی پی حکومت سے نالاں ہے مگر حکومت کچھ نہیں کر رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں