پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مذاکرات کا عمل ہمیشہ سے اہم رہا ہے، سیاستدانوں کو جب ذاتی مفادات کے لالے پڑتے ہیں تو مذاکرات کی طرف بھاگتے ہیں پھر تمام تر رنجشیں بھول جاتے ہیں۔
گزشتہ کئی برس سے حکمران جماعتوں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان بڑی خلیج حائل ہے۔ ہر معاملے پر ان کے درمیان اختلاف رہتا ہے، کسی بھی عوامی مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ ان مسائل اور اختلافات پر مذاکرات نہیں ہوتے لیکن جونہی سیاستدانوں کے ذاتی مسائل کا معاملہ آتا ہے تو وہ تمام تر دشمنیاں بالائے طاق رکھ کر مذاکرات کی میز پر آجاتے ہیں اور ان کے درمیان اتفاق بھی ہوجاتا ہے۔ جیسے اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے معاملے پر کبھی اختلاف نہیں ہوئے، اچھے خاصے پرانے سیاسی دشمن بھی اس پر شیر و شکر ہوجاتے ہیں مگر عوامی مسائل ہی ایسے ہیں جو سیاستدانوں کے اتفاق رائے کو ترستے رہتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہونے والے مذاکرات نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا یہ مذاکرات واقعی عوامی مفاد کےلیے ہیں یا صرف سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے؟
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا آغاز سیاسی تناؤ کو کم کرنے اور ملک کو درپیش بحرانوں کا حل نکالنے کے نام پر کیا گیا۔ پہلا مذاکراتی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں دونوں جماعتوں نے شرکت کی۔ تاہم، ان مذاکرات کا ایجنڈا ابھی تک واضح نہیں ہوسکا۔
تحریک انصاف کی طرف سے جو مطالبات ہوں گے ان میں اپنے سیاسی مفادات کو ہی مدنظر رکھا جائے گا بلکہ رکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطالبات کیا ہیں؟ بانی پی ٹی آئی کو رہا کیا جائے، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ ان کے پیش نظر محض اپنے سیاسی مستقبل کی بہتری ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ اگر حالات اسی طرح چلتے رہے تو ان کا دوبار اقتدار میں آنا محال ہے۔ یہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کا حال ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ سیاستدان جب اپنے ذاتی مفادات کی بات آتی ہے تو وہ اپنے بدترین مخالفین کے ساتھ بھی اتحاد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن جب عوامی مسائل کے حل کےلیے مل بیٹھنے کی بات کی جائے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کی تمام تر جدوجہد، جوڑ توڑ، اتحاد اور دشمنیاں ملکی مفاد میں نہیں بلکہ اپنے اور اپنی جماعت کے مفاد میں ہوتی ہیں۔ کبھی عوامی مفادات کےلیے ہمارے سیاستدان اتنی جدوجہد نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں عوامی مسائل کے حل کےلیے مذاکرات کا خیال آتا ہے۔ وہاں وہ پوری دشمنیاں نبھاتے ہیں اور کبھی اتفاق نہیں کرتے، جس کی وجہ سے عوامی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی و اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ افراطِ زر، بے روزگاری، توانائی کا بحران، صحت و تعلیم کی سہولتوں کا فقدان جیسے مسائل عوام کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ بے روزگاری اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان شدید مایوسی میں ڈوب گئے ہیں۔ ہر ایک کو ملک چھوڑ کر بیرون ممالک بھاگنے کی فکر ہے۔ ظاہر ہے جب اپنے ملک میں انہیں آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں ہوں گے تو وہ کریں گے بھی کیا؟ آگے بڑھنے کے مواقع تو دور کی بات ہے یہاں تو انہیں کھانے کی فکر رہتی ہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی روزی کی فکر میں رہتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اپنی اقتدار کی جنگ، ذاتی مفادات کے حصول، اور اپنی اولاد کے روشن مستقبل کی فکر میں مصروف ہیں۔
جس طرح سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کےلیے مذاکرات کر رہے ہیں، اسی طرح انہیں عوامی مسائل کے حل کےلیے بھی مل بیٹھنا چاہیے۔ ملک کی معیشت، اچھی طرز حکمرانی، میرٹ، عوام کو سہولیات کی فراہمی، قابلِ اعتبار نظام احتساب، ادارہ جاتی اصلاحات، اور نظام انصاف میں جلد انصاف کی فراہمی جیسے موضوعات پر بھی سیاستدانوں کو اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔
اگر سیاستدان واقعی ملک و قوم کی بھلائی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل کے حل کےلیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ بصورت دیگر، عوام کا سیاستدانوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، جو کہ کافی حد تک اٹھ چکا ہے مگر ابھی سیاسی کارکن اپنی قیادت پر کسی حد تک اعتماد کیے ہوئے ہیں۔ اگر اسی طرح ان کا رویہ رہا تو پھر یہ بھی ختم ہوجائے گا پھر ان کا سیاسی مستقبل تو خراب ہوگا ہی جو مفاد پرست لوگوں کا ہونا بھی چاہیے مگر ملک مزید بحرانوں کا شکار ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔