سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر 27 دسمبر 2024 کو شیئر کی جانے والی ویڈیو، جس میں اسلام آباد میں پولیس افسر کی گاڑی کے اندر ایک شخص پر تشدد دکھایا گیا ہے، دراصل ایک پرانی ویڈیو ثابت ہوئی ہے۔
27 دسمبر کو یہ ویڈیو ’’ایکس‘‘ پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ ’’تمام فرعون اسلام آباد پولیس میں بھرتی ہیں۔ دیکھو یہ ظالم حسن ابدال کے نوجوان پر کیسا ظلم کر رہا ہے۔‘‘ جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے حالیہ دنوں کے احتجاج کے بعد یہ سلوک کیا جارہا ہے۔
تاہم فیکٹ چیک کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بے شک تشدد کی یہ ویڈیو اصلی ہے لیکن اس کا حالیہ دنوں سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ایک پرانے واقعے کی ویڈیو ہے جو اپریل 2024 میں پیش آیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر اس غلط معلومات والی پوسٹ کو پانچ لاکھ چھیاسی ہزار سے زائد مرتبہ دیکھا گیا اور تقریباً چھ ہزار مرتبہ ری شیئر بھی کیا گیا۔ یہاں تک کہ سینئر صحافی حامد میر اور سابق اینکر پرسن عمران ریاض کی جانب سے بھی اسے دوبارہ پوسٹ کیا گیا جسے بالترتیب 225,400 اور 189,100 ویوز ملے۔
اس غلط انفارمیشن والی ویڈیو کو فیس بک اور یوٹیوب پر بھی شیئر کیا گیا۔ تاہم آئی ویریفائی پاکستان کی جانب سے فیکٹ چیک میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔
درحقیقت یہ ویڈیو اپریل 2024 کی ہے۔ اور اس وقت کی خبروں کے مطابق یہ ویڈیو پولیس موبائل میں مشتبہ چوروں پر تشدد کی ہے۔ جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پولیس موبائل میں تشدد کی یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اسلام آباد پولیس اہلکار کو معطل کردیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد پولیس نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد فاروق کو پولیس وین میں مشتبہ چوروں کو مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد معطل کردیا تھا۔
فیکٹ چیک کے دوران یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ حال میں اس ویڈیو کو غلط اور گمراہ کن معلومات کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، پولیس وین میں تشدد کا شکار ہونے والوں کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔