برطانوی حکومت نے ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے، نئے احکامات کے تحت مشتبہ افراد پر لیپ ٹاپ یا موبائل فون استعمال کرنے، سوشل میڈیا نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے پر پابندی عائد ہوگی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت پرکیا گیا ہے، جب گزشتہ برس انگلش چینل کے ذریعے اس ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہے۔
دنیا میں خانہ جنگی، تنازعات، غربت اور کئی دیگر اسباب کے باعث ہر سال لاکھوں افراد انسانی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کا تقریباً ہر خطہ اس مسئلے سے دوچار ہے۔ درحقیقت تارکین وطن کی اسمگلنگ تیزی سے ایک بڑا مجرمانہ کاروبار بنتا جا رہا ہے جس پر قابو پانے کی کوششوں کو اس جرم کی بین الاقوامی نوعیت اور بہت سے ممالک میں موزوں قوانین کے فقدان کے سبب مسائل کا سامنا ہے۔
دنیا بھر میں تارکین وطن کی اسمگلنگ کا مالی حجم 5.5 تا 7 ارب (امریکی) ڈالر سالانہ ہے جو مالدیپ یا مونٹی نیگرو کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے مساوی ہے۔ اسمگلروں نے لاکھوں تارکین وطن کو بحیرہ روم کے پار منتقل کیا جو شمالی افریقہ سے اٹلی تک پھیلا اسمگلنگ کا سب سے بڑا اور خطرناک ترین راستہ ہے، یہ تعداد اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ تھی۔
تارکین وطن کی اسمگلنگ کرنے والے یہ کام سستے میں نہیں کرتے۔ ایک فرد کو شمالی افریقہ سے یورپ پہنچانے کے عوض 6 ہزار یورو وصول کیے جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سے شمالی افریقہ کی جانب سفر کرنے والوں کو چند سو ڈالر سے 55 ہزار ڈالر تک ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہے۔
بعض انتہائی منظم جرائم پیشہ گروہوں کے لیے یہ اسمگلنگ متعدد دیگر مجرمانہ سرگرمیوں جیسی ایک سرگرمی ہے، اگرچہ اسمگلر اس سے بھاری منافع کماتے ہیں لیکن دنیا بھر میں ان کے خلاف مالیاتی تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مساوی قوانین کی عدم موجودگی سے مختلف ممالک کے اسمگلرز فائدہ اٹھاتے ہیں۔
جنسی مقاصد کے لیے اسمگلنگ اور جبری مشقت یا Sextrafficking کی ایسی تعریف جو عالمی سطح پر متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہو نہیں ملتی ہے۔ البتہ لوگوں کی، جنسی فعل کے لیے ملک کے اندر اور باہر منظم آمدورفت کا احاطہ مذکورہ بالا تعریف میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس آمدورفت کے لیے جسمانی تشدد، دھوکے، فریب، لالچ یا کسی قرض کی ادائیگی پر مجبور کر کے افراد کو لایا جاتا ہے جو بعد ازاں آسانی سے استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں وسطی پنجاب کے کچھ اضلاع انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں کچھ دیہات میں آپ کو عالیشان مکانات نظر آئیں گے جہاں رہنے والے فخریہ طور پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہ مکان ان کے یورپ میں مقیم بیٹوں کی کمائی سے بنے ہیں۔ یوں گاؤں کے دوسرے لوگوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو یورپ بھیجیں تاکہ راتوں رات ان کے دن بھی بدل جائیں، لیکن سب کی کہانی کا اختتام یکساں نہیں ہوتا۔
پاکستان سے پوری کی پوری لوگوں کی کھیپ جاتی ہے۔ ایک ایک گھر سے 12، 12 افراد جاتے ہیں، یہ لوگ خفیہ طریقے سے تو نہیں گئے، ایئرپورٹس سے گئے ہیں، جن ایئرپورٹس پر یہ اترتے ہیں تو وہاں بھی لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ کہاں جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں کتنے رسک ہیں۔
یورپ جانے کی خواہش میں کتنے ہی جواں سال بیٹے صحراؤں اور پہاڑوں سے گزرتے موت کی گھاٹی میں اترچکے ہیں۔ کچھ مختلف ملکوں کی بارڈر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے اور کچھ سمندری لہروں کی نذر ہو گئے۔ یہ مشکلات عبور کر کے جو لوگ یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو وہاں زندگی آسان نہیں ہوتی۔ جب سے کوئٹہ کے راستے ایران جاکر وہاں سے یونان اور دیگر یورپی ممالک پہنچنے کا سلسلہ کم ہوا ہے، اس کے بعد دو ہی غیرقانونی طریقوں سے یورپ جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایک کشتی کے راستے اٹلی پہنچنے کا ہے اور دوسرا راستہ جعلی دستاویزات تیار کر کے آذر بائیجان یا البانیہ یا کچھ ایسے ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ پہنچنا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان ملکوں کے ہوائی اڈوں پر امیگریشن میں سختی نہیں ہوتی۔ دونوں راستوں سے یورپ پہنچنے کی 100 فی صد ضمانت تو نہیں لیکن جانے والوں کے دماغوں پر یورپ جانے کا خواب اس قدر سوار ہوتا ہے کہ وہ ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
حالاں کہ کشتی کے ذریعے اٹلی جانے کے سفر میں ہر سال سیکڑوں اموات ہوجاتی ہیں اور جعلی دستاویزات والے بھی اکثر پکڑے جاتے ہیں۔ حالیہ کچھ مہینوں میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں یورپ جانے کے خواہش مند افراد ایجنٹوں کی وساطت سے زائرین کے ویزوں پر ایران جاتے ہیں اور پھر وہاں اغوا کاروں کے گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
اغوا کار بعد میں پاکستانی لڑکوں پر تشدد کرتے ہیں اور تاوان کے لیے ان کی وڈیوز ان کے گھر وٹس ایپ کر کے تاوان طلب کرتے ہیں۔ آذربائیجان یا البانیہ یا کسی چھوٹے ملک سے جعلی ویزے پر اٹلی یا یورپ کے کسی دوسرے ملک پہنچانا ناممکن ہے کیوں کہ جب وہ شخص جس ملک میں پہنچتا ہے تو وہاں ویزا اسکین ہوتا ہے اور ویزہ ریکارڈ میں سے نکلتا ہی نہیں، اس لیے ایسے مسافرکو ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔
اگر ہماری معیشت ٹھیک ہوتی اور تعلیم کا معیار اچھا ہوتا تو لوگ ملک چھوڑ کر نہ جاتے۔ معیشت تو انڈیا اور فلپائن کی بہتر ہے لیکن وہاں سے بھی لوگ تارکین وطن ہو رہے ہیں۔ یہ افراد زیادہ پڑھے لکھے یا ہنرمند نہیں تھے، کوئی 22 لاکھ، کوئی 25 لاکھ کوئی 30لاکھ روپے دے کر ملک سے گیا تھا۔ یونان حادثے میں ملوث انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ تاحال کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور کچھ لوگ بھاگ گئے، ان کے تانے بانے ترکی میں بھی ہیں اور لیبیا میں بھی ہیں، وہاں بھی ہمارے سفارت خانوں کو پتہ ہو گا کہ ان کا کیا کاروبار ہے؟
پاکستان سے بے ضابطہ ہجرت کی بنیادی وجوہات بیروزگاری، مواقع کی کمی، غربت، عدم تحفظ اور تنازعات ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے ایجنٹ نوجوان اور کمزور افراد کو نشانہ بنانے اور انھیں مغربی ممالک کے سفر کی ترغیب دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کی منظم کارروائیاں اداروں سے ملتی جلتی ہیں۔
یہ نیٹ ورک خود کو برقرار رکھتے ہیں اور بہت سے سابق مہاجرین خود انسانی اسمگلر بن جاتے ہیں۔ ایف آئی اے میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ وہ 2018 کے ایکٹ کے تحت اپنی ذمے داریوں کو پورا کر سکے اور ایف آئی اے کے اہلکاروں پر اضافی نگرانی کی جائے تاکہ کرپشن کو روکا جا سکے، جو انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو بے خوفی سے کام کرنے کا موقع دیتی ہے۔ طویل مدت میں، ریاست کو معاشی حالات کو بہتر بنانے اور بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی ہجرت کے دباؤ کو کم کیا جا سکے۔
پاکستان میں افراد کو راتوں رات امیر ہو جانے کا جھانسہ دے کر لاکھوں روپے کے عوض ایجنٹوں کا مغربی ممالک اسمگل کرنے کا دھندا برس ہا برس سے جاری ہے، متعلقہ اداروں کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور معنی خیز ہے۔ یہ غیر قانونی طور پر سفر کرنے والے بہت سے ان ممالک کی سرحدوں پر گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود منزل تک پہنچنے والے سیکیورٹی کے اداروں سے بچنے کے لیے انتہائی غیر محفوظ مقامات پر پناہ لیتے ہیں جہاں یہ لوگ مختلف حادثوں کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
یہ صورتحال بین الاقوامی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی کا باعث بنی ہے جسے دیکھتے ہوئے اندرون ملک وسیع پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے اور ذمے داروں کو گرفتار کرنے اور قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دینے میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے مزید برآں قومی اسمبلی میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک بل کئی برس سے زیر التوا ہے جسے جلد از جلد قانونی شکل دینے کی ضرورت ہے مگر تا حال اس بل کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔