کرم معاہدے سے اڑان پاکستان تک
کے پی کے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے کرم میں گزشتہ سال ستمبر میں دو قبائل کے درمیان شروع ہونے والے تنازع کہ جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے تھے، فریقین کے مابین ’’ امن معاہدہ‘‘ طے پا گیا ہے۔
14 نکاتی اس معاہدے پر ہر دو جانب سے 45-45 افراد نے دستخط کیے ہیں۔ معاہدے سے قبل کے پی کے حکومت، وفاقی وزیر داخلہ اور عسکری حکام نے بات چیت و مشاورت کے بعد فریقین کے اہم لوگوں پر مشتمل ایک امن جرگہ قائم کیا گیا جس نے تقریباً تین ہفتوں تک مصالحانہ کردار ادا کرتے ہوئے دو طرفہ امن معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بالآخر یکم جنوری کو یہ امن معاہدہ طے پا گیا جس کے مطابق 2008 کا مری معاہدہ اور سابقہ تمام علاقائی و اجتماعی معاہدے، کاغذات فیصلے اور قبائلی روایات اپنی جگہ برقرار رہیں گے جن پر ضلع کرم کے تمام مشیران متفق اور سابقہ معاہدات کو مزید بہتر بنانے، امن قائم رکنے اور معاہدوں پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اس معاہدے کے باوجود کرم میں حالات بدستور خراب ہیں۔بہرحال صوبائی حکومت کوشش کررہی ہے ، دیکھتے ہیں ، کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
کرم کے فرقہ وارانہ واقعات میں درجنوں افراد کی ہلاکت یقینا افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے۔ اس پہ مستزاد دو طرفہ کشیدگی اور راستوں کی بندش کے باعث خوراک و دواؤں کی ترسیل رک جانے سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے جس کی شدت کو پورے ملک میں محسوس کیا جارہاہے۔
یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ ایک دین اسلام کے پیروکار مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنے عقائد و نظریات میں انتہا پسندی کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کی دلیل کو سننے، سمجھنے اور ماننے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور فریقین شمشیر بکف ایک دوسرے کے مقابلے پر آ جاتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ ایک انسان کا ناحق قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کا خون بہانے میں اپنے عقیدے، نظریے، موقف اور دلیل کی فتح سمجھتے ہیں۔ اس انتہا پسندانہ سوچ نے رخ بدل بدل کر پورے ملک کو آگ و خون کے الاؤ میں دھکیل دیا ہے۔
اس پہ مستزاد بیرونی طاقتوں کی آشیرباد سے شدت پسند عناصر نے خوف و دہشت کا ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ملک میں امن و امان تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ پاک فوج فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کے خلاف اپنے لہو کے نذرانے دے کر ملک میں امن کے قیام کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے وہ قابل تحسین ہیں۔ کرم امن معاہدے پر ہر دو فریق کی جانب سے اخلاص نیت کے ساتھ عمل درآمد کی صورت ہی میں امن قائم ہوگا۔
دونوں جانب سے رویوں اور سوچ میں مثبت تبدیلی لانا ہوگی اور اپنے عمل سے امن کی خواہش کا اظہار کرنا ہوگا، ورنہ کرم امن معاہدے سے لہو ٹپکتا رہے گا، چنگاری شعلہ بنتی رہے گی۔
ادھر وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اربوں ڈالر قرضوں کے بوجھ تلے دبی اور آئی ایم ایف کی کڑی شرطوں کی زنجیروں میں جکڑی معیشت کو ’’استحکام‘‘ دینے کے لیے ’’اڑان پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پنج سالہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اڑان پاکستان کا مقصد برآمدات بڑھا کر اقتصادی ترقی حاصل کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ معاشی استحکام حاصل کر لیا اب آگے بڑھنا ہے۔ وفاق، صدیوں، تمام شراکت داروں کے تعاون سے پروگرام پر عمل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کامیابی کے لیے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی ضروری ہے۔ ملک کو آگے جانے کے لیے اشرافیہ کو قربانی دینا ہوگی۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اڑان پاکستان اہم سنگ میل ہے۔ ہم چھ ماہ میں اقتصادی اہداف حاصل کر لیں گے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ گزشتہ 10/9 ماہ میں دیوالیہ ہونے کے قریب معاشی صورت حال میں کچھ بہتری نظر آ رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ انڈیکس عبور کرچکی ہے، مہنگائی حکومتی دعوؤں کے مطابق سنگل ڈیجٹ پر آگئی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، حکومت نیک نیتی کے ساتھ اڑان پاکستان منصوبے پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو معاشی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ تاہم زمینی حقائق بھی پیش نظر رکھنا ہوں گے۔
حکومت جس معاشی ترقی کے دعوے کر رہی ہے اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے ہیں۔ خود حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا موقف ہے کہ معاشی ترقی صرف کاغذ پر نظر آ رہی ہے عام آدمی تک اس کا فائدہ منتقل نہیں ہو رہا ہے۔
اسی باعث غربت کا گراف مزید بلند ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستان میں غربت کی شرح 25.3 فی صد سے زائد رہی جوکہ 2023 کے مقابلے میں 7 فی صد بڑھ گئی ہے اور ایک سال کے دوران مزید ایک کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کا شکار ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ریکارڈ مہنگائی اور معاشی بحران کے باعث غربت میں اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق دسمبر میں مہنگائی میں 0.6 فی صد کا اضافہ ہوا۔ اس پہ مستزاد حکومت نے یکم جنوری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پھر اضافہ کر دیا جس سے لامحالہ گرانی میں مزید اضافہ ہوگا۔
صنعت کاروں نے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کو وزیر اعظم کے اڑان پاکستان کے معاشی وژن کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ طبقہ اشرافیہ کو قربانی دینا ہوگی۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے اراکین، وزرا اور مشیروں کی تنخواہوں میں 50 فی صد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ہے اشرافیہ کی قربانی؟ قرضوں کے بوجھ تلے دبی معیشت ایسے اڑان بھرے گی؟ بقول غالب:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس ملک میں منصوبے پہلے بھی بنتے رہے ہیں لیکن حالات کے تھپیڑوں نے انھیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔ زمینی صورت حال آج بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کی منزل حاصل نہیں کی جاسکتی۔ خود وزیر اعظم بھی ’’وسوسوں‘‘ کا ذکر کر چکے ہیں۔
سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن افہام و تفہیم کے ساتھ قومی مسائل پر ہم خیال اور یک زبان ہوں۔ جب کہ آج کی حکومت اور اپوزیشن دونوں مخالف سمتوں کے مسافر ہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ لچک کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اندرونی و بیرونی دباؤ کے باعث چار و ناچار مذاکرات پر آمادہ ہوئی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کی اندرونی و بیرونی ہمدردیوں و طرف داریوں میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ 9 مئی کے 19 مجرموں کی سزا معافی و رہائی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مثبت اشارہ ہے۔ بعینہ امریکا میں صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد صورت حال میں مزید تبدیلی کے امکانات ہیں۔ قصہ کوتاہ اڑان پاکستان اچھا پروگرام ہے لیکن سیاسی محاذ آرائی کے بیچ پنڈولم بن جائے گا۔