کیا واقعی ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں؟

سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تعلقات کا بگاڑ بھی ہے۔


سلمان عابد January 07, 2025
[email protected]

سیاسی استحکام کا براہ راست تعلق اچھی طرز حکمرانی اور عام لوگوں کے بنیادی حقوق کی شفافیت پر مبنی ہے ۔ہم خود تجزیہ بھی کرسکتے ہیں کہ اس ملک میں لوگ سیاست ،جمہوریت اور ریاست کے نظام کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں ۔

فرسودہ ، نظریات کی بنا پر ریاست یا حکومت کے نظام کو چلانے کی کوشش آج کے جدید سیاسی نظام کی نفی کرتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں میںآج بھی ملکی حالات کے بارے میں غیر یقینی اور لاتعلقی کا احساس غالب ہے ۔سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان تعلقات کا بگاڑ بھی ہے۔ سیاسی استحکام کا بنیادی سوال حق حکمرانی کا ہے کہ یہ حق عوام کو اپنے ووٹ کی بنیاد پر حاصل ہے یا اس پر کسی اور تشدد یا سازشی سیاسی قوت کا غلبہ ہے۔

جب سیاست یا سیاسی استحکام کو جمہوری بنیادوں کے بجائے آمرانہ ذہنیت کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو اس کے نتیجے میں سیاسی استحکام کی خواہش رکھنا یا اس پر زور دینا کہ ہم سیاسی استحکام رکھتے ہیں کوئی بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔منصفانہ اور شفاف انتخابات یا حکومتی تشکیل کا کھیل یا کسی کو اپنی خواہش پر لانے اور نکالنے کی سیاست خود سیاسی عدم استحکام کے پہلووں کو مضبوط کرتا ہے ۔

مجموعی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ اگر ملک کو آئین و قانون کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو خود حکمران طبقات کو اس نظام کے تحت چلنا ہوگا جو یقینی طور ہماری طاقت ور حکمران اشرافیہ کو قبول نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے نظام یا سیاسی استحکام کی بات کرتے ہیں جس کا عملی ریموٹ استحصالی طبقات کے اپنے ہاتھ میں ہو اور یہ عمل عوام کی حق حکمرانی کی نفی کرتا ہے ۔

سیاسی استحکام میں سیاسی فیصلے سیاسی قیادت کے پاس ہوتے ہیں لیکن ہمارے سیاسی قوتیں اپنے اپنے مفادات کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں بلکہ تمام فیصلے داخلی اور خارجی دونوں محاذو ں پر بڑی طاقتو ں کے کنٹرول میںہوتے ہیں ۔اس لیے سیاسی استحکا م کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں خود کو جدید حکمرانی کے نظام کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔

اس وقت ہمارا ریاستی یا حکومتی نظام میں ایک بڑا ٹکراو نظر آتا ہے اور سب ہی اپنے اپنے سیاسی، انتظامی ، آئینی اور قانونی دائرہ کار کی سطح پر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے نظا م میں مداخلت کرتے ہیں یا اداروں کے درمیان بداعتمادی کے ماحول نے سب کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کردیا ہے ۔ہر ادارہ آئین و قانون سے زیادہ اپنی بالادستی چاہتا ہے اور اس بالادستی کے سیاسی جنوںنے ہمارے سیاسی نظام میں ایک بڑی ہیجانی کیفیت کو پیدا کیا ہوا ہے ۔

ادھر سیاسی قیادت موقع پرست ہے۔ وہ خود کو بچانے کے لیے غیرسیاسی قوتوں کے آگے جھکنے پر تیار ہوتی ہے۔ سوال یہ ہی ہے کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے۔ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور ریاست یا طاقت ور طبقات کے اس بحران سے نکلنے کی خواہش یا اسے اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر ہم نے پرانی فکر پر ہی نظام کو چلانے کی ضد رکھی ہوئی ہے اور اسی منطق کے ساتھ کھڑے رہیں کہ ہم دوسروں کی سازش کا شکار ہیں تو یہ خوش نمانعرے ہمیں عملی طور پر کچھ نہیں دے سکیں گے۔

سیاسی استحکا م ایک مضبوط سیاسی نظام ،مضبوط سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ سمیت دیگر ادارو ں کے موثر کردار سے جڑے ہوتے ہیں ۔لیکن ہم کمزور جمہوری نظام کی بنیاد پر یا سیاسی ڈکٹیشن کی بنیاد پر نظام کو چلانا چاہتے ہیںجو ہمیں مسلسل ناکامیوں کی طرف دکھیل رہا ہے مگر ہم اپنی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ۔سیاسی استحکام کی ایک بڑی کنجی نظام میں موثر اصلاحات اور جوابدہی یا احتساب کے نظام سے بھی جڑی ہوتی ہے مگر ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ۔سیاسی استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی ایک بنیاد مضبوط اور خود مختاری پر مبنی مقامی حکومتوں کا نظام ہے مگر وہ بھی ریاستی و حکومتی ترجیحات میں بہت پیچھے کھڑا ہے ۔

اس لیے اگر ہم نے اس ملک میں واقعی سیاسی استحکام کو پیدا کرنا یا اسے یقینی بنانا ہے تو ہمیں اپنے ہی نظام میں بہت کچھ تبدیل کرنا ہے ۔ اس تبدیلی کے بغیر یا کسی بھی سخت گیر سرجری یا بڑ ے غیرمعمولی اقدامات کے بغیر کوئی بڑا کام بہتری کے تناظر میں ہم نہیںکرسکیں گے ۔لیکن اس کے لیے پہلی شرط یہ ہی ہے کہ ہمیں بطور ریاست،حکومت اور عوام یا اہل دانش کی سطح پر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم عملی طور پر سیاسی استحکام سے بہت دور ہیں ۔اس کو تسلیم کیے بغیر ہم کسی بھی طور پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔لیکن کیا ایسا کچھ مکن ہوسکے گا فی الحال ایک خواب ہی لگتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں