اسرائیل کی تشکیل و پرورش میں عالمی اداروں کا کردار (قسط دوم)
فلسطین کی تقسیم کی قرار داد منظور کرانے کے لیے امریکا نے کئی رکن ممالک پر زبردست دباؤ ڈالا۔ بہت سے جھک گئے۔کچھ نے مزاحمت کی۔ مثلاً وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے الزام لگایا کہ حمایت کے عوض انھیں مختلف ذرایع سے امداد کی پیش کش کی گئی۔اقوامِ متحدہ میں بھارتی مندوب وجے لکشمی پنڈت کو دھمکی آمیز پیغامات بھی موصول ہوئے۔مگر بھارت نے قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔
افریقی ملک لائبیریا کے سفیر نے انکشاف کیا کہ امریکیوں نے ان کی امداد منقطع کرنے کی دھمکی دی۔فلپینز کے سفیر کارلوس رومیلو نے ایک دن پہلے بیان دیا کہ ہم اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔اگلے دن رومیلو کی جگہ نیا سفیر آ گیا اور فلپینز نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ہیٹی کو ووٹ کے عوض پانچ ملین ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا گیا۔
فرانس اسے لیے فلسطین کی تقسیم کی حمایت سے ہچکچا رہا تھا کہ کہیں شام ، لبنان اور شمالی افریقہ کی مسلمان نو آبادیوں میں فرانس مخالف جذبات نہ پھٹ پڑیں۔ مگر فرانس دوسری عالمی جنگ کے سبب معاشی طور پر ادھ موا ہو چکا تھا اور اسے مارشل پلان کے تحت امریکی امداد کی اشد ضرورت تھی۔چنانچہ صدر ٹرومین کی انتظامیہ نے بین الاقوامی جوہری کمیشن میں متعین کھلے صیہونیت نواز امریکی سفیر برنارڈ باروش کے ذریعے صدر چارلس ڈیگال کو پیغام بھجوایا کہ فلسطینی تقسیم کی قرار داد کے لیے فرانسیسی حمایت کتنی ضروری ہے۔ فرانس نے نہ صرف قرار داد کے حق میں ووٹ دیا بلکہ اسرائیل کی تشکیل کے بعد اس کے جوہری پروگرام کے لیے بنیادی تکنیکی امداد بھی فراہم کی۔
وینزویلا نے بھی اپنی قرار داد مخالف پالیسی پر امریکی دباؤ کے تحت آخری لمحوں میں نظرِ ثانی کی۔ برازیل سمیت تیرہ کیریبین اور لاطینی امریکی ریاستوں اور مغربی یورپ کے آٹھ ممالک نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔حیرت انگیز طور پر برطانیہ نے غیر حاضری اختیار کی۔شاید اس لیے کہ وہ اس وقت فلسطین کا ناظم تھا اور اسے بظاہر غیرجانبداری کی اداکاری کرنا تھی۔
اس سے بھی زیادہ حیرت یہ تھی کہ سوشلسٹ بلاک کے لیڈر سوویت یونین جس کے اقوامِ متحدہ میں یوکرین اور بیلاروس کو ملا کے تین ووٹ تھے بشمول چیکو سلوواکیہ اور پولینڈ قرار داد کی حمایت کی۔افریقہ سے لائبیریا اور جنوبی افریقہ کی گوری نسل پرست حکومت نے حق میں ووٹ دیا۔اس کے علاوہ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور امریکا نے حمائیت کی۔جب کہ مخالفت کرنے والوں میں بھارت ، پاکستان، افغانستان، سعودی عرب،ایران، عراق،لبنان،شام،یمن، مصر اور ترکی کے علاوہ یونان اور کیوبا شامل تھے۔
غیر حاضر ممالک میں میکسیکو،ارجنٹینا اور چلی سمیت لاطینی امریکا کے چھ ممالک کے علاوہ قوم پرست چین، ایتھوپیا، یوگوسلاویہ، برطانیہ اور تھائی لینڈ سمیت گیارہ ممالک شامل تھے۔المختصر یہ قرار داد تیرہ کے مقابلے میں تینتیس ووٹوں سے منظور ہو گئی ۔
امریکا نے جب تقسیم کی قرار داد کی منظوری کے بعد فلسطین میں خونریزی دیکھی تو ٹرومین سرکار نے فروری انیس سو اڑتالیس میں تجویز پیش کی کہ فلسطین کو مزید پانچ برس اقوامِ متحدہ کے انتدابی نظام ( ٹرسٹی شپ) کے تحت رکھا جائے تاکہ اس مدت میں مسئلے کا پرامن حل نکل سکے۔فلسطینی قیادت نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا مگر فلسطین کی یہودی قیادت نے شدید مخالفت کی۔چنانچہ امریکا میں بھی حکمران ڈیموکریٹک پارٹی نے کثرتِ رائے سے اس تجویز کو رد کر دیا۔
اسرائیل نواز مورخین ، دانشور اور سفارت کار اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب پندرہ مئی انیس سو سینتالیس کو صیہونی قیادت نے تل ابیب کے ایک میوزیم میں ہونے والے تاریخی اجلاس میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو سات عرب ممالک ’’ بے چارے‘‘ یہودیوں کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے لیے چاروں جانب سے پل پڑے اور نوزائیدہ اسرائیل کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے۔مگر یہ مورخ اور دانشور بھول جاتے ہیں کہ صیہونی قیادت نے اسرائیل کے قیام کے باضابطہ اعلان سے تین ماہ قبل ہی ( فروری ) اقوامِ متحدہ کی انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کی قرار داد کے تحت خود کو الاٹ ہونے والے شہروں میں برطانوی انتدابی انتظام کے ہوتے نسلی صفائی اور عرب قصبات و دیہاتوں کی مسماری کا کام شروع کر دیا تھا۔
برطانوی انتظامیہ کی عین ناک کے نیچے نو اپریل کو مسلح یہودی ملیشیا ارگون اور سٹیرن گینگ نے یروشلم کے نزدیک سات سو نفوس پر مشتمل دیر یاسین قصبے میں لگ بھگ ڈھائی سو فلسطینی مردوں ، عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کیا۔انھیں درِختوں سے باندھ کر مارا گیا یا پھر زندہ جلایا گیا یا پھر قطار میں کھڑا کر کے بھون دیا گیا۔اسرائیلی مورخ بینی مورس کے مطابق زندہ بچ جانے والوں کو قیدی بنایا گیا، جم کے لوٹ مار اور ریپ کے واقعات ہوئے۔ریڈ کراس کے نمایندے کے مطابق ایک بڑے غار میں لگ بھگ ڈیڑھ سو لاشیں ملیں۔جب کہ پچاس لاشیں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔
یہ کوئی غیر دانستہ واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک ماہ پہلے ڈیوڈ بن گوریان کے زیرِ صدارت اجلاس میں فلسطنیوں کو دہشت زدہ کر کے ان کے انخلا کو تیز تر بنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اسرائیلی مورخ ایلان پاپے کے بقول دس مارچ انیس سو سینتالیس کے ’’ دالیت پلان ’’ کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد فلسطینیوں کا متعدد مقامات پر قتلِ عام کر کے اقوامِ متحدہ کے تحت ملنے والے پورے الاٹ شدہ خطے کو فلسطینوں سے خالی کرایا گیا۔
دیر یاسین کا قتلِ عام اس منصوبے کا آغاز تھا۔ اگلے نو ماہ میں فلسطنیوں کی نصف آبادی دربدر ہو گئی۔پچاس فیصد آبادیاں مسمار کر دی گئیں۔ ان کے کھنڈرات پر عبرانی نام لگا کے وہاں نئے آنے والے یورپی یہودیوں کو آباد کیا گیا۔بہت سے دیہاتوں کی مسماری چھپانے کے لیے وہاں پائن کے درختوں کی جنگلاتی شجرکاری کی گئی۔
جس دن ( پندرہ مئی ) اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا، اس دن تک ڈھائی لاکھ سے زائد فلسطینی باشندے شہروں سے کھدیڑے جا چکے تھے اور باقی پانچ لاکھ متحدہ عرب افواج کے حملے کے دوران نکالے گئے۔عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں اقوام ِ متحدہ کی کوششوں سے عارضی جنگ بندی ہو گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے اپنے الاٹ شدہ چھپن فیصد علاقے کو پچاسی فیصد کر لیا۔جب کہ باقی فلسطین ( غزہ اور غربِ اردن ) جون انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ جنگ کے بعد ہڑپ کر لیا گیا۔
جن ممالک نے ستتر برس پہلے فلسطین کی تقسیم کی قرار داد نمبر ایک سو اکیاسی کے حق میں ووٹ دیا تھا،ان میں سے کئی آج اسرائیل کے کٹر مخالف ہیں۔جیسے برازیل،کولمبیا ، وینزویلا ، ناروے اور جنوبی افریقہ۔ جن ممالک نے قرار داد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا، ان میں سے متعدد آج اسرائیل کے اقتصادی و سفارتی ساجھے دار ہیں۔جیسے بھارت ، ترکی ، مصر وغیرہ۔
ایران نے بھی مخالفت کی تھی مگر اسرائیل بننے کے فوراً بعد یہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ترکی کے بعد دوسرا مسلمان ملک تھا۔ آج اسرائیل ایران کو اول دشمن سمجھتا ہے اور ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے کے باوجود فلسطینیوں کا وکیل ہے۔گویا بین الاقوامی تعلقات میں مستقل دشمنی ، دوستی یا غیر جانبداری کا کوئی مطلب نہیں۔
لیکن ایک منٹ۔اگر قرار داد نمبر ایک سو اکیاسی اسرائیل کے قیام کی قانونی بنیاد ہے تو اسی اقوامِ متحدہ نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے دخلی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے قیام کے سات ماہ بعد گیارہ دسمبر انیس سو اڑتالیس کو ایک اور تاریخی قرار داد بھی منظور کی تھی۔اس کا کیا حشر ہوا۔اگلے مضمون میں دیکھتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)