کراچی کی طاقتور تجاوزات مافیا

وزیر اعلیٰ، کمشنر اور میئر تجاوزات کے خاتمے کے دعوے اکثر کرتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔


[email protected]

روزنامہ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تجاوزات کی بھرمار نے شہریوں کو فٹ پاتھوں پر چلنے سے محروم کردیا ہے اور طاقتور تجاوزات مافیا نے فٹ پاتھ بھی فروخت کرنا شروع کر دی ہیں جس کے بعد سڑکوں کے بعد فٹ پاتھ بھی شہریوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا دی گئی ہیں اور شہریوں اور راہگیروں سے فٹ پاتھوں پر چلنے کا بھی حق چھین لیا گیا ہے اور شہر میں سڑکوں کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی کا محکمہ انسداد تجاوزات ہی نہیں بلکہ علاقوں کے اسسٹنٹ کمشنروں، پولیس تھانوں کی موبائلوں اور ٹریفک پولیس کی موجودگی میں تجاوزات مسلسل بڑھ رہی ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ، کمشنر کراچی اور میئر بلدیہ عظمیٰ کی ہدایات اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔

 کراچی کی شاہراہوں اور سڑکوں پر تجاوزات کی پہلے ہی بھرمار تھی اور چنگچی رکشے والوں کی وجہ سے سڑکوں پر چلنا تو پہلے ہی ناممکن تھا اور راہگیروں کے چلنے کے لیے جو فٹ پاتھ رہ گئی تھیں ان کو پہلے وہاں کے دکانداروں نے اپنا اضافی سامان رکھنا شروع کیا ہوا تھا اور جو جگہ بچ جاتی تھی وہاں پتھارے لگوا کر ہفتہ وار رقم وصول کر رہے تھے اور فٹ پاتھوں کے کنارے بھی پتھارے قائم ہونے کے بعد راہگیروں کے چلنے کے لیے بہ مشکل ایک ڈیڑھ فٹ جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔

اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھوں پر موٹرسائیکلیں کھڑی کی جاتی ہیں یا دکانداروں کی ذاتی گاڑیاں جس کے بعد پتھارے لگائے جاتے ہیں اور آدھی سڑک پر تجاوزات قائم ہونے کے بعد جو جگہ بچتی ہے وہاں چنگچی والوں نے اپنے رکشے کھڑے کرکے شاہراہوں کو مزید تنگ کر رکھا ہے اور بسوں اور گاڑیوں کی تعداد اور موٹرسائیکلوں کی وجہ سے بڑھ جانے سے شاہراہوں پر ٹریفک جام رہنا معمول بنا ہوا ہے۔

شاہراہوں پر کھانے پینے یا جوس کی جو دکانیں ہیں انھوں نے گاہکوں کے لیے اپنی دکانوں میں کوئی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کرسیاں فٹ پاتھوں پر رکھی ہوئی ہیں۔ ان دکانداروں نے اپنا فروخت ہونے والا سامان دکانوں سے باہر نکال کر فٹ پاتھوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور درمیان میں کچھ جگہ چھوڑ کر کرسیاں گاہکوں کے بیٹھنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔

رات کو دیگر دکانیں بند ہونے کے بعد وہاں بھی باربی کیو، دہی بڑے فروخت کرنے والے قبضہ کر لیتے ہیں جس کے بعد فٹ پاتھوں پر چلنے کی بھی جگہ باقی نہیں رہتی۔ کھانے کے ہوٹلوں نے فٹ پاتھوں پر ہی نہیں بلکہ سروس روڈ، سڑکوں کے درمیان کی گرین بیلٹوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے اور سروس روڈ اور سامنے کی سڑکوں پر کھانا کھانے آنے والوں کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جس سے سڑکیں مزید تنگ ہو جاتی ہیں۔

رکشوں پر آنے والے لوگوں کے لیے سروس روڈ اور سڑکوں پر رکشے بھی کھڑے رہتے ہیں اور شہر بھر میں رش والے علاقوں میں چنگچی رکشے والوں نے اپنے غیر قانونی اسٹاپ بنا رکھے ہیں جس سے راہگیروں کے لیے سڑکوں پر چلنا ناممکن ہوگیا ہے ۔ ریڑھیوں پر مال فروخت کرنے والوں نے بھی سڑکوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

شہر کی اندرونی مارکیٹوں میں پھلوں اور خصوصاً سبزی فروشوں نے تو تجاوزات قائم کرنے کی حد ہی کی ہوئی ہے ۔تجاوزات کے انسداد کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایک محکمہ ڈائریکٹر کے ماتحت مقرر ہے اور کے ڈی اے کا بھی اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ ہے جب کہ شہر کی 26 ٹاؤنز میونسپل کارپوریشنوں میں بھی تجاوزات کا عملہ مقرر ہے اور انھیں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں، لیکن تجاوزات ختم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں ۔

 وزیر اعلیٰ، کمشنر اور میئر تجاوزات کے خاتمے کے دعوے اکثر کرتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔ شہر کی تجاوزات کمائی کا ذریعہ ہیں جہاں سے متعلقہ عملے کو مفت کا کھانا، سبزی اور فروٹ مفت ملتا ہے جس کی وجہ سے تجاوزات کے خلاف مصنوعی مہم کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں