لاہور:
بڑھتی ہوئی آبادی اور کاروباری مراکز، کی تعمیر نے لاہور سے بہت ساری تاریخی اور سیاسی جماعتوں کے مسکن کو ختم کر کے رکھ دیا ہے انہی میں سے ایک لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب نکسن روڈ پر بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ بھی شامل ہے۔
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ پر کبھی ہوٹربجاتی ہوئی گاڑیاں آتی تھیں پولیس اور ٹریفک وارڈن کی دوڑیں لگتی تھی، ٹریفک روک کر صدر اصف زرداری وزیراعظم متحرمہ بے نظیر بھٹو نواز شریف ، چوہدری شجاعت حسین، نواب اکبر خان بگٹی، مشاہد حسین، مولانا فضل الرحمان، شیخ رشید احمد، مخدوم امین فہم سمیت دیگر وزرا اراکین اسمبلی نواب زادہ نصراللہ خان سے مشاورت کے لیے 32 نکسن روڈ آیا کرتے تھے۔
یہ ایک طرح کا سیاست کا مرکز بن چکا تھا، بڑے بڑے کالم نگاروں، صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی تربیت گاہ بھی تھی، نکسن روڈ پر صبح شام رات سادہ لباس میں مختلف قانون نافذ کرنیوالوں کی ڈیوٹی بھی لگی رہتی تھی۔
جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل مشرف کے مارشل لاء دور میں جمہوریت کی بحالی آئین و قانون کی بالادستی، عدلیہ کی ازادی سمیت دیگر معاملات پر مشاورت اور سیاسی جدوجہد کے لیے تحریکوں کا آغاز نواب زادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ سے ہی ہوتا تھا۔
اسی رہائش گاہ سے گرمیوں کے موسم میں نواب زادہ نصراللہ خان کی طرف سے آم کے تحائف بھی بھجوائے جاتے تھے لیکن آج ان کی رہائش گاہ جو ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہے، حجاج کرام کے حج کیمپ کے سامنے اب وہاں پر لنڈے کے پرانے اور نئے کپڑے جوتوں اور مختلف بیگوں کا کام ہو رہا ہے۔
اس کے بالکل سامنے اورنج لائن ٹرین کا اسٹاپ بن چکا ہے، شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ یہ وہ جگہ ہے جو نواب زادہ نصراللہ کی زیر نگرانی سیاسی مرکز کا کردار ادا کیا کرتی تھی، نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات کے بعد اس گھر کو گرا کر یہاں پر بڑا پلازہ بنا دیا گیا ہے، جہاں پر کئی دکانیں کھل چکی ہیں۔
صرف نوابزاہ کے نام کی ایک روڈ کی تختی لگی ہوئی ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ یہاں پر بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان کی رہائش کا ہوا کرتی تھی، شاید آنے والی نسلوں کو یہ بھی نہ پتہ ہو کہ نوابزادہ نصراللہ خان کون تھے، کیا کرتے تھے اور ان کا سیاست میں کیا کردار تھا۔
بہرحال ان کی 32 نکسن روڈ جو عظیم سیاسی مرکز ہوا کرتی تھی آج مختلف کاروباری مراکز میں ڈھل چکی ہے، یہاں پر صبح سے شام بلکہ رات گئے تک پرانے نئے کپڑوں جوتوں کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔
یہاں پر خریداری کے لیے آنے والوں کو تک کو یہ معلوم نہیں بلکہ جو یہاں پر دکانیں لے کر اپنا کاروبار کر رہے ہیں ان کو بھی نہیں معلوم یہاں پر پہلے کیا ہوتا تھا، یہ جگہ جہاں پر وہ بیٹھ کر اپنے لیے دو وقت کی روٹی کما رہے ہیں یہاں پر کس عظیم شخصیت کا بسیرا ہوا کرتا تھا۔