شام کا دارالحکومت دمشق دھماکوں سے لرز اٹھا، یہ دھماکے معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کے ہتھیاروں کے ڈپو کے مقام پر ہوئے، امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دھماکے اسرائیلی فضائی حملے کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ادھر عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل اور حماس کے ممکنہ جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات پر مذاکرات جاری ہیں، جب کہ اسرائیل نے کہا ہے کہ لبنان نے اگر دریا لیطانی کے قریب اپنی فوج تعینات نہ کی تو سیز فائر کا معاہدہ ختم کردیں گے۔
اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں شام، لبنان اور یمن پر حملے کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ خطے کے ممالک کو طاقت کے ذریعے دبانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ حملے ایک واضح پیغام ہیں کہ اسرائیلصرف فلسطین تک محدود نہیں ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور انھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنان اور یمن جیسے ممالک پر حملے کر کے، اسرائیل اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کررہا ہے اور بالواسطہ طور پر ایران کو چیلنج کر رہا ہے ۔ یہ عمل ایک وسیع تر اسٹرٹیجک منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کی برتری کو مستحکم کرنا ہے۔ یہ صورتحال خطے میں مزید انتشار اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے،کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا ایجنڈہ پوشیدہ راز نہیں رہا اور نہ عزائم۔ فلسطین سے شام، لبنان اور یمن تک کی تفصیلات سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ’’بشارالاسد‘‘ کے متعلق روسی موقف کو معمولی نہیں لینا چاہیے، اندازہ ہے کہ روس سمیت خطے میں موجود قوتیں اب غالب آنے والی قوت سے معاملہ کرنے میں دلچسپی لیں گی۔
ایک وقت آجاتا ہے کہ انسان اپنے پسندیدہ ’’ پتے‘‘ بھی پھینکنے میں لمحہ کی تاخیر نہیں کرتا جب اُسے مکمل ہار کا یقین ہو جائے یہی صورتحال شام، اردگرد ممالک میں ہے۔ شام میں حالات بہت بگڑتے جار ہے ہیں۔ نہ امن ہے نہ خوراک۔ موجودہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے شام پر اپنے فضائی حملوں کا آغاز کردیا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے بڑی مکاری سے ان حملوں کا جواز یہ پیش کیا ہے ۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج شام کے بھاری ا سٹرٹیجک ہتھیاروں کو تباہ کر دے گی جن میں میزائل اور فضائی دفاعی نظام بھی شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ پچھلے دنوں کے دوران اسرائیل نے شام میں درجنوں فضائی حملے کیے ہیں۔ دمشق کے قریب کیے گئے ایک اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شام سے آنے والی میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے ۔ اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ادارے نے شام میں حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ ذخیرے محفوظ ہیں۔
دوسری جانب لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی تاریخی طور پر 1980 کی دہائی سے چلی آرہی ہے، جب 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا۔ حزب اﷲ کی تشکیل بھی اسی دوران ہوئی، جو اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی جڑیں کافی گہری ہیں اور اسرائیل اکثر حزب اﷲ کو اپنے شمالی علاقوں کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہ حالیہ حملہ ایک وسیع تر تنازعے کا حصہ ہے، جو غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ حملے حزب اﷲ کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اسرائیل اور حزب اﷲ کے درمیان یہ تصادم نہ صرف لبنان اور اسرائیل کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ حزب اﷲ اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات ہیں اور یہ خدشہ موجود ہے کہ ایران بھی اس تنازعے میں براہ راست شامل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح، اسرائیل کے اتحادی امریکا کی بھی اس تنازعے میں مداخلت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کا بیان کہ اسرائیل کی جنگ ایک ’’ نئے مرحلے‘‘ میں داخل ہو چکی ہے اور شمال کی جانب حزب اﷲ کے خلاف فوجوں، وسائل اور توانائی کی دوبارہ تعیناتی ہو رہی ہے، گیلنٹ کے مطابق، یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کا مقصد 65,000 اسرائیلی شہریوں کو واپس لانا تھا۔
یہ وہ افراد تھے جنھیں جنگ کے ابتدائی دنوں میں حزب اللہ کے ممکنہ حملوں کے خدشے کے پیش نظر لبنان کی سرحد کے قریب واقع ان کے گھروں سے نکالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسرائیل نے اپنا اگلا ظلم اس وقت ڈھایا جب اس نے یمن میں حوثی اہداف پر فضائی حملے کیے، اسرائیلی فوج نے حوثیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کی ہدایت اور مالی معاونت کے تحت کام کر رہے ہیں اور عراقی ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر خطے کو غیر مستحکم کرنے اور عالمی نیویگیشن میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حوثیوں نے بارہا اسرائیل کو نشانہ بنایا ہے، خاص طور پر غزہ کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر میزائل داغے ہیں۔
بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں امریکا اور نیٹو بحری فوج موجود ہے۔ ادھر مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادیوں پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکاروں کا ظلم و جبر مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے جس کو اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہر قسم کی درپردہ اور پس پردہ معاونت اور گارنٹی حاصل ہے۔
خونی کھیل جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے شروع کیا ہے، یہ واقعی اس خطے کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ جنگ اور تشدد کا یہ سلسلہ نہ صرف غزہ اور لبنان جیسے علاقوں میں انسانی جانوں کا ضیاع اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھا رہا ہے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی بڑے تنازعے کا باعث بن سکتی ہے۔
امریکا اور مغربی دنیا کی جانب سے جو پیغام ملا وہ بالکل واضح اور دو ٹوک ہے کہ وہ ہر حال میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس کی ہر طرح سے مدد کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں شروع کرنے کا راستہ کس نے ہموار کیا تھا؟ لبنان، حزب اللہ، حماس، اسرائیل اختلافات کے قلابے مسئلہ فلسطین سے ملتے ہیں اور مسئلہ فلسطین ماضی میں شاید کچھ اور ہو،لیکن اب صرف یہ ہے کہ اسرائیل 1967 کی پوزیشن پر واپس چلا جائے اور فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونے دے تو اس کے وجود کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
یہ معاہدہ ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں 1993میں طے پایا تھا اور اس پر فلسطین کی قیادت کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے کئی مسلم ممالک کی حمایت بھی شامل تھی، لیکن مشکل یہ ہے کہ اسرائیل 1967کی پوزیشن پر واپس جانے کے لیے تیار نہیں اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور پالیسیوں پر مسلسل عمل پیرا ہے، کیونکہ اسے دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر اسرائیل میں بسانا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ رقبے اور جگہ کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت وہ فلسطین کی سرزمین ہتھیا کر پوری کر رہا ہے۔
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1993 میں جو اوسلو معاہدہ طے پایا تھا، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر بسے یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ 10ہزار تھی، لیکن آج 31 سال بعد یہ تعداد 70 لاکھ سے تجازو کرچکی ہے۔ جب آپ کسی کو پیچھے دھکیلتے دھکیلتے دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں تو اس کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ حماس اور حزب اللہ کو یہ راستہ اختیار کرنے پر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور امریکا اور اس کے حامیوں کی جانب سے اسرائیل کی بے جا جانبدارانہ حمایت، امداد اور اقدامات نے مجبور کیا ہے۔
اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں اور عزائم کے خلاف کئی قراردادیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے منظورکی جا چکی ہیں، جن کو ماننے سے اسرائیل یکسر انکار کرتا رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل کے حق میں جو ویٹو پاور استعمال کی جاتی ہے، دراصل وہی جانبداری ہے۔ امریکا کی جانب سے اسرائیل کے تحفظ کے لیے جو اسلحہ اور امداد فراہم کی جاتی ہے اور جب تک یہ امداد ختم نہیں ہوتی اس وقت تک نہ تو مشرق وسطیٰ پر منڈلاتے جنگ کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور نہ ہی عالمی سطح پر پائیدار امن قائم کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔