توشہ خانہ میں ضمانت کا فیصلہ ۔…ایک جائزہ

یہ تحفہ کوئی انھوں نے اپنی جیب سے تو خریدا نہیں تھا کہ وہ سیدھا اپنے گھر لے گئے۔


مزمل سہروردی January 08, 2025
[email protected]

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے توشہ خانہ کیس میں بانی تحریک انصاف کی ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔فیصلہ جاری ہونے کے بعدیہ عوام کی عدالت میں آجاتا ہے جہاں اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ اس پر تجزیہ کرنا اور اس پر تبصرہ کرنے کی قانونی طور پر اجازت بھی ہوتی ہے۔ اس لیے میں اس فیصلے کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا ۔

یہ چودہ صفحات کا فیصلہ ہے۔ میں بھی سمجھتا ہوں کسی کیس میںضمانت ملنا ایک عارضی ریلیف ہوتا ہے۔ یہ کوئی مستقل ریلیف نہیں ہے۔ کیس کا فیصلہ الگ چیز ہے، ضمانت الگ چیز ہے۔ ضمانت ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بے گناہ قرار دے دیے گئے۔ اس لیے میں بھی سمجھتا ہوں ضمانت کے فیصلوں کو ایسے نہیں لکھا جانا چاہیے کہ ایسا لگے کہ ملزم بری ہوگیا ہے یا ایسا لگے کہ اب کیس کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔

 ضمانت کا فیصلہ کوئی کیس کا حتمی فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ ضمانت ہونے کے بعد کیس کوئی اور جج بھی سن سکتا ہے۔ اس لیے ایسا نہیں لگنا چاہیے کہ دو ججز نے کیس کے میرٹ پر الگ الگ رائے دے دی ہے۔ ایک رائے ضمانت میں سامنے آگئی ہے، دوسری کیس کی سماعت کے فیصلہ کے بعد آگئی ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ کہ کیا توشہ خانہ کیس میں ضمانت کے فیصلہ میں کیس کے میرٹ کو جانچنے کی کوشش کی ہے؟ عدالت نے کیس کے میرٹ کو ڈسکس کیا ہے؟ اور کیا ضمانت کے فیصلے کا کیس کے فیصلہ پر اثر ہوگا؟ کیا ضمانت کے فیصلہ میں کوئی حتمی رائے تو نہیں دے دی گئی ہے، جس سے کیس کی سماعت پر اثر پڑے گا؟ اگر ایسا ہو اہے تو ٹھیک نہیں ہوا ہے۔

ضمانت کے فیصلے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف پر اس بات پر مقدمہ نہیں بنایاجا سکتا کہ انھوں نے تحائف پہلے توشہ خانہ میں جمع نہیں کرائے۔ فیصلے کے مطابق صرف رسید جمع کرانا‘ قواعد کے مطابق کافی تھا، تحفہ جمع کرانا ضروری نہیں۔ یاد رہے کہ یہ ایک مہنگے جیولری سیٹ کی بات ہور ہے۔

جو بانی تحریک انصاف کو تحفہ میں دیاگیا تھا۔ اس نقطے کی جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے کہ تحفہ توشہ خانہ یعنی سرکاری خزانہ میں جمع کرانا ضروری نہیںہے۔ آپ سیدھے گھر لے کر جا سکتے ہیں۔ آپ نے قیمت لگا کر جو پیسے جمع کرائے ہیں، اس کی رسید جمع کرانا ضروری ہے۔ اب یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قواعد کے مطابق تحفہ کی قیمت لگوائی جاتی ہے اور پھر اس کی رعایتی قیمت سرکاری خزانہ میں جمع کرائی جاتی ہے۔

بانی تحریک انصاف پر الزام یہ ہے کہ ایک تو انھوں نے سیٹ پہلے توشہ خانہ میں جمع نہیں کرایا۔ دوسرا اس کی قیمت بھی کم لگوائی تاکہ انھیں کم رعائتی قیمت ادا کرنی پڑے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ جب تحفہ پہلے توشہ خانہ میں جمع کرانا ضروری ہی نہیں تو پھر یہ کیسے طے ہوگا کہ کونسے جیولری سیٹ کی قیمت لگوائی گئی ہے؟ جب تحفہ سرکاری تحویل میں آیا ہی نہیں تو باقی سار ا عمل کیسے شفاف ہو سکتا ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ بانی تحریک انصاف جو اس ملک میں کرپشن ختم کرنے آئے تھے، جو اپنے سیاسی مخالفین پر توشہ خانہ سے تحفے لینے کے کیس بنا رہے تھے، انھیں سیاسی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے، انھوں نے اپنا تحفہ توشہ خانے میں پہلے کیوں نہیں جمع کرایا۔

یہ تحفہ کوئی انھوں نے اپنی جیب سے تو خریدا نہیں تھا کہ وہ سیدھا اپنے گھر لے گئے۔ اگر قانونی طور پر ایسا کوئی سقم تھا بھی تو عدالت کو اس سقم کی نشاندہی کرنی چاہیے۔ یہ درست ہے کہ بانی تحریک انصاف نے 2023میں توشہ خانہ کے لیے نئے قوانین بنوائے ۔ لیکن عدالت نے بھی قرار دیا ہے کہ ان قوائد کا ماضی سے اطلاق ممکن نہیں۔ میں کسی حد تک اس کو جائز سمجھتا ہوں۔

میری رائے میں تو تحفہ پہلے سرکاری خزانے یعنی توشہ خانہ میں نہ جمع کرا کر بطور وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی نے کوئی جرم کیا ہے یا نہیں لیکن امانت میں خیانت ضرور کی ہے۔ جہاں اس ملک میں ایک وزیر اعظم کو اپنے بیٹے سے تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نا اہل کیا گیا ہو کہ وہ بطور وزیر اعظم یہ ظاہر کرنے پابند تھے ۔ وہاں تحفہ سیدھے گھر لیجانے کو جائز قرار دینا یکساں انصاف کے اصول کے برعکس ہے۔ جہاں ملک میں انصاف ضروری ہے وہاں یکساں انصاف بھی ضروری ہے۔ یہاں اب مسئلہ یکساں انصاف کا بھی ہے۔

بانی تحریک انصاف کے بارے میں ان کے سیاسی مخالفین کو یہ بھی گلہ ہے کہ انھیں غیر معمولی رعائتیں ملتی ہیں۔ ضمانتوں پر بھی یہی رائے ہے کہ بانی تحریک انصاف کو غیر معمولی ضمانتیں ملتی ہیں۔ یہاں تو عدالتیں ان کو ضمانت دینے کے لیے رات گئے تک کھلی رہی ہیں۔ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

اس لیے عدالتی فیصلوں میں یکساں انصاف بھی نظر آنا چاہیے۔یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جو وزیر اعظم اپنے مخالفین کو چور چور کہتا رہا ہے۔ اس کو خود تو تحفے سیدھے گھر نہیں لے کر جانے چاہیے تھے۔ دوسروں کو چور کہتے رہے اور خود تحفے سیدھے گھر لے کر جاتے رہے۔ ان کو تو شفافیت کا ایسا معیار بنانا چاہیے تھا کہ سب کے لیے مثالی ہوتا۔ لیکن شاید تحفے سیدھے گھر لیجانے کی پاکستان میں پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

اگر یہ کوئی جرم نہیں تو کم از کم نا پسندیدہ عمل تو ہونا چاہیے تھا۔ضمانتی فیصلے سے توبانی پی ٹی آئی کے باعزت بری ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ توشہ خانہ کے اتنے کیس کیوں ہیں، اصل میں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ تحائف کی ایسی لوٹ سیل لگائی گئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ گھڑی کا معاملہ الگ ہے۔ بہر حال وزیر اعظم شہباز شریف نے توشہ خانہ سے رعائتی قیمت پر تحائف لینے بند کر دیے ہیں۔

انھوں نے وزیر اعظم ہاؤ س میں ان تحائف کو عوام کو سامنے رکھ دیا ہے ۔ اور وہ کوئی بھی تحفہ رعائتی کیا پوری قیمت پر بھی نہیں لے رہے۔ یہ بہتر مثال ہے جب آپ توشہ خانہ کے کیس بنا رہے ہیں تو خود تو نہ لیں۔ لیکن بانی تحریک انصاف مخالفین پر کیس بھی بناتے رہے اور خود بھی تحائف سیدھے گھر لیجاتے رہے۔ اب یہ جرم نہیں ہے تو اور بات ہے۔ لیکن درست نہیں ہے۔ اس کو جائز بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے اگر بانی تحریک انصاف کے کسی مخالف کے بارے میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہوتا توتحریک انصاف کا میڈیا سیل کیا کرتا‘ پی ٹی آئی کے لیڈر اپنے جلسوں میں اس بارے میں کیا کہتے‘اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں