ریاست اپنے ملازمین کو تنخواہیں‘ مراعات اور سہولیات کیوں دیتی ہے؟ آئین پاکستان اس سوال کا دو ٹوک جواب دیتا ہے کہ سرکاری ملازمین ریاست اور شہریوں کے جان و مال اور کاروباری مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے آئین و قانون میں درج اپنے طے شدہ خدمات و فرائض انجام دیتے ہیں۔ان خدمات و فرائض کی ادائیگی کے عوض انھیں سرکاری خزانے سے ماہانہ تنخواہ ، مراعات اور دیگر سہولیات دی جاتی ہیں۔
یہ تنخواہیں، مراعات اور سہولیات شہری اپنی کمائی میں سے جو ٹیکس دیتے ہیں،اس رقم میں سے ادا کی جاتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اور کنسورشیم ریاست کو قرض دیتے ہیں،اس کے ضامن بھی شہری ہی ہوتے ہیں، آج پاکستان کے عوام جو ٹیکس پر ٹیکس بھگت رہے ہیں، وہ یہی قرضے ادا کررہے ہیں، ہر حکومت جو قرض لیتی ہے، وہ ریاست اور عوام کے اثاثے گروی رکھ ہی لیتی ہے۔
پاکستان میں کتنے حکمران آئے اور گئے، کسی نے اپنی جیب سے ریاست کے ذمے قرض ادا کرنے کے لیے ایک دمڑی تک نہیں دی ہے، الٹا اپنی جیبیں بھر کر رفوچکر ہوگئے ، آج ان کی اولادیں اور ان کے چمچے کڑچھے، ایماندار، صالح، اصول پسند، کلچرڈ اور نہ نجانے کیا کیا کہلاتے ہیں۔ چھوڑئیے! بات سرکاری ملازمین کی ہورہی ہے تو عرض یہ کرنا ہے کہ آئین میںاس محدود طبقے کو ’’پبلک سرونٹس‘‘ لکھا گیا ہے، عوام کی دل پشوری کے لیے ذہین لوگوں نے ان دو لفظوں کا ترجمہ’’ عوام کے نوکر‘‘ کیا ہے۔
اسی سے نوکرشاہی نکلا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سنیٹرز کو عوام کے ’’منتخب نمایندے‘‘ کا لبادہ پہنایا گیا ہے، حالانکہ یہ طبقہ کتنا عوام کا نمایندہ ہوتا ہے، اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان نامی عوامی باغ کا پتا پتا بوٹا بوٹا انھیں اچھی طرح جانتا ہے اور پہچانتا بھی ہے ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ’’عوام کے نوکروں‘‘ المعروف پبلک سرونٹس اور ’’عوام کے منتخب نمایندوں‘‘عرف پیپلز ریپریزنٹیٹوز کے طورو اطوار اور کروفرکا مشاہدہ کریں تو نوآبادیاتی دور کے برطانوی لارڈز اور نائٹس بھی شرمسار ہوجائیں کیونکہ انگریزاشرافیہ کی جاہ حشمت و شان وشوکت ہندوستان اور دیگر نوآبادیوں کے وسائل کی لوٹ مار کی وجہ سے تھی، انھوں نے برطانوی عوام کا مال نہیں تھا لیکن ہمارے لارڈ اور نائٹس نے اپنے وطن اورعوام کی زمینیں، کھیت، جنگل اور مال مویشی تک بیچ کھائے ہیں حتیٰ کہ توشہ خانے کی گھڑیاں تک بغیر ڈکار مارے نگل لی ہیں، پھر یہ دولت امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی ، فرانس ، اسپین اور سوئٹرزلینڈ لے گئے۔
ان کے بارے میں آئین میں جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ جھوٹ لگتا ہے یا پھر کسی شرارتی پیرزادے وکیل نے عوام کا مذاق اڑانے کے لیے لکھ دیا ہے، جسے درست کرنا ہمارے ’’دیالو‘‘ حکمران طبقوں نے اپنی شان کے خلاف سمجھا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئین میںکچھ بھی لکھا ہو، کوئی ان کا کیا کرلے گا۔ ساحر لدھیانوی نے شاید اسی لیے کہا تھا، اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کا اڑایا ہے مذاق ۔ ایک دفعہ مرحوم ضیاء الحق نے آئین کی تشریح یہ کہہ کے کردی تھی کہ یہ کاغذ کا ایک ٹکرا ہوتا ہے، میںجب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک دوں۔ اس قول زریں کو پنچایت میں سچا ثابت کرنے کے لیے تھوک کے حساب سے وکیل بھی دستیاب ہوتے ہیں اور پنچایت بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کردیتی ہے۔
چند روز قبل بیوروکریٹس کی ایک بیٹھک میںمسمی قلم مزدور بھی پورے کروفر سے براجمان تھا۔ خاطر جمع رکھیں کہ میں نے ’’قلم مزدور‘‘ کا صیغہ بھی ویسے ہی استعمال کیا ہے، جیسے آئین سازوں نے افسروں کے لیے ’’عوام کے نوکر‘‘ اور حاکموں کے لیے ’’عوام کے نمایندے‘‘ کے الفاظ بیان کیے ہیں۔اﷲ کے فضل سے قلم مزدور اور اینکر بھی پرلے درجے کے محب وطن اور عوام کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ بات بیوروکریٹس کی محفل کی ہورہی تھی ، جہاں ملکی سیاست پر دھواں دار مکالمہ جاری تھا۔ایک سے بڑھ کر ایک ’’ایکسکلوسو نیوز‘‘ لیک ہورہی تھیں۔
ہر حکمران کی کارکردگی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا جارہا تھا لیکن اس سارے قصے میں ’’عوام کے یہ نوکر‘‘ معصوم اور ایمانداری کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز نظر آئے البتہ کولیگز میں ابلیس کثرت سے نظر آئے۔ میں بھی اپنی صحافتی رگ کو رگڑ رگڑ کر نجانے کہاں سے دور کی کوڑی لا کر ملک و قوم کی خدمت کا حق ادا کرتا رہا۔ اچانک ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ انتہائی جذباتی ہوگئے ، فرط جذبات میں اسٹبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگے ، عوام کو جاہل قراردے کر ان کی کھال ادھیڑ ڈالی اور ہماری طرف متوجہ ہوکر تمام پاکستانیوں کو غلام ابن غلام ابن غلام کا اعزاز بخش دیا، موصوف کی سیاسی فکر اور تربیت کی بلند پروازی کا اندازہ یوں کرلیں کہ وہ اس نعرے کی زندہ تفسیر ہیں ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘۔
وہ وسط ایشیائی، مشرق وسطیٰ اور یورپی اقوام ، ایران و توران تک کو آزاد قومیں اور خطے ڈکلیئر کررہے تھے، جب کہ پاکستانیوں کو صدیوں سے غلام قوم قرار دے رہے تھے۔ ان کی اسٹڈی کے مطابق پورا براعظم افریقہ غلام تھا، غلام ہے اور غلام رہے گا، پاکستانی بھی ہمیشہ غلام تھے، غلام ہیں اور غلام رہیں گے۔ میرے ذہن میں فوراً ایک اورپاکستانی ریٹائرڈ بزرگ بیوروکریٹ آگیا جو آج کل متعدد لال بھجکڑ یوٹیوبرزعرف سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو پاکستان اور اس کے عوام کے اسلاف کے بارے میں اپنے علم دریاؤ سے آگاہ کررہے ہیں۔
موصوف ساری عمر ’’پاکستان کے ’’عوام کی نوکری‘‘ کرتے رہے۔ان کے ٹیکسوں سے تنخواہیں، مراعات اور نہ نجانے کیا کیا سہولیات لیتے رہے۔لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں پتہ چلا کہ پاکستانی تو ایک غلام قوم ہیں، پھر اس سے بھی آگے نکل کر انھوں نے کلاسیفیکیشن کی کہ پنجاب کے عوام نے کبھی کسی غیرملکی حملہ آور سے جنگ ہی نہیں کی،بلکہ اس کا ساتھ دیا ہے، پنجاب کی مزاحمت کی تاریخ ہی نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اب عمرانیات و تاریخ کے مرغ باد نما ’’پبلک سرونٹ‘‘ کام چور نوکر کے بارے میں سوائے اس کے کیا کہا جائے،’’بابا جی! اس عمر میں انسان سترا بہترا ہوجاتا ہے،اس سکون آور دوائی لے کر سال خوردہ دماغ کو آرام دیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ جس کا نمک کھایا ہو، اسے برا نہیں کہنا چاہیے۔
ویسے بھی اگرنوکرشاہی کے ہرکارے اتنے قابل و ذہین ہوتے تو دوران نوکری کوئی معرکہ ہی مار لیتے۔ بات کہاں سے کہاں چلی گئی ، بات محفل بیوروکریٹاں کی ہورہی تھی۔ وہ ریٹائربیوروکریٹ جو پاکستانیوں کو غلام قرار دے رہے تھے، میں نے انھیں مشورہ دیا، ’’سر! آپ باوسیلہ، باعلم اور بلند پایہ شخصیت ہیں، آپ وسط ایشیا کے کسی ملک میں کیوں نہیں چلے جاتے ، یہ خطہ ہمارا ہمسایہ بھی ہے اوربقول آپ کے، آپ کا ڈی این اے بھی ادھر کا ہی ہے ، لہٰذا درید آئد درست آئد بہتر یہی ہے کہ اپنے غیور، بہادر، حریت پسند اور آزاد ہم نسلوں اور ہم زادوں میں گھل مل جانا چاہیے ۔
اس پر موصوف کھسیانے ہنسی ہنستے ہوئے بولے ، مجھے مروانا ہے ، ان ملکوں میں تو شخصی آزادیاں ہی نہیں ہیں، آمریتیں ہیں، سارا وسط ایشیاء روس کا غلام ہے ، وہاں اب بھی روس کی فوجیں موجود ہیں‘‘۔ میں نے مشورہ دیا، سر! افغانستان یا ایران کے بارے میں کیا خیال ہے، شام اور یمن والے بھی آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اس پر موصوف کا جواب بڑا دلچسپ تھا،’’تم لوگ تو چاہتے ہو کہ میں کسی نہ کسی طرح مارا جاؤں ، پاکستان میں اگر کوئی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بات کررہا ہے تو تم لوگ چاہتے ہو کہ اسے عبرت کی مثال بنا دیا جائے، یہ کیا بات ہوئی کہ تم فلاں ملک چلے جاؤ ۔ یاد رکھو! تم جیسے غلاموں کو یہاں رہ کر ٹھیک کریں گے، اس کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی منت ترلے ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔
اس پر میں بولا، سر! آپ لوگ ٹرمپ کو مداخلت کی دعوت دیںتو بھی ’’آزاد قوم‘‘ ہیں اور ہم ادھر ادھر دیکھ بھی لیں تو ہمارا کریکٹر ڈھیلا ہے، یہ کہاںکا انصاف ہے ۔ اس پر بھی ان کے ماتھے پر ندامت کا پسینہ نہیں آیا، الٹا زیادہ بلند آواز میںبولے،آپ تو غلام ہیں، آپ کو کیا پتہ آزادی کیسی ہوتی ہیں۔اس سے پہلے کہ میں کوئی اور بات کرتا، وہ اٹھے اور یہ کہتے ہوئے محفل سے نکل گئے، ہم کوئی غلام ہیں۔