کرم ضلع میں امن کے لیے گرینڈ جرگے میں امن معاہدہ ہوگیاہے۔ اس معاہدے کے تحت اسلحہ حکومتی سرپرستی میں جمع کیا جائے گا۔ کسی شرپسند کو پناہ دینے والا مجرم تصور ہوگا۔ معاہدے پر45 سنی اور 45 شیعہ اراکین نے دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے افراد کو دشمن تصورکیا جائے گا اور لڑائی کو مذہبی رنگ نہیں دیا جائے گا۔لیکن ابھی کرم اور پارا چنار میں امن بہت دور ہے۔حکومت بھی تاحال معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرا سکی۔البتہ باتیں کی جا رہی ہیں۔
اس معاہدے پر دستخط کے ساتھ ہی پورے ملک میں اس ایشو پرجاری دھرنے ختم کر دیے گئے ہیں۔ کرم میں قیام امن اور پارا چنار کے راستے کھولنے کے مطالبے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں وحدت المسلمین کی اپیل پر اس کے کارکنوں نے دھرنے دیے تھے مگر سب سے زیادہ خراب صورتحال کراچی میں پیدا ہوئی تھی۔
کراچی شہر کے 22 کے قریب علاقوں میں دھرنوں کی بناء پر زندگی معطل ہوکر رہ گئے تھے۔ کراچی ایئرپورٹ جانے آنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب نے کوشش کی کہ شہریوں کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے دھرنے ختم ہوجائیں مگر مرتضیٰ وہاب کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ مرتضیٰ وہاب نے یہ بیانیہ پیش کیا کہ پارا چنار کی صورتحال قابلِ مذمت ہے مگر اس صورتحال کی ذمے داری خیبر پختون خوا کی تحریک انصاف کی حکومت پر عائد ہوتی ہے، یوں پشاور میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے دیے جائیں۔
بہرحال کراچی شہر میں 60مقامات پر دھرنے دینے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔26دسمبر میں شہر میں دھرنے شروع ہوئے۔ پولیس نے دھرنے ختم کرانے کے لیے شہر کے مختلف علاقوں میں آپریشن بھی کیے گئے، یوں دھرنوں کے شرکاء اور پولیس میں تصادم کی خبریںبھی آئیں۔مگر انتظامیہ کی مصالحتی کوششوں سے شہر بڑے سانحے سے بچ گیا۔ 31دسمبر کو رات سات بجے تک شہر کے حالات انتہائی خراب تھے مگر اگلے دو گھنٹوں کے بعد شہر پر سکون ہوگیا۔کیونکہ امن معاہدے کے بعد پورے ملک سے دھرنے ختم کر دیے گئے۔
1977میں جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیاتھا توتب پورے ملک میں سیاسی سرگرمیاں معطل کردی گئیں تھیں۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر جنرل صاحب اپنے وعدے کو بھول گئے اور انھوں نے اسلامی نظام کے نفاذ کا فریضہ سنبھال لیا۔
دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے خود ساختہ مشن کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے کئی متنازع قوانین نافذ کیے۔ تمام جمہوریت پسند جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا اورحکومت کو مسترد کردیاتھا۔ صحافیوں، وکلاء تنظیموں اور کمزور سول سوسائٹی نے ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے تحت ان بین الاقوامی تنظیموں نے جنرل ضیاء الحق نے حکومت کی مخالفت کی۔
جب جنرل ضیاء الحق کی مخالف سیاسی جماعتوں نے تحریک بحالی جمہوریت قائم کی تو ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں نے جنرل ضیاء الحق کی حکومت اور اس کے بنائے ہوئے قوانین کو مسترد کردیا تھا۔ اس دوران ایران میں آیت اﷲ خمینی نے شہنشاہ ایران کا تختہ الٹ دیا اور ایران میں ایک مذہبی حکومت قائم ہوئی۔ ایرانی انقلاب کے حامیوں کا خیال تھا کہ آیت اللہ خمینی کا یہ انقلاب تمام مسلمانوں کا انقلاب ہے اور جس کو تمام دنیا بھر کے مسلمان قبول کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس دوران پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا ملی اور کئی تنظیمیں قائم ہوئیں۔
ایک تنظیم نے کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر دھرنا دیا تھااور پھر اسلام آباد پر دہاوا بول دیا گیاتھا۔ جنرل ضیاء الحق نے کچھ مطالبات مان لیے مگر اب فضاء میں فرقہ وارانہ تضاد ابھر کر سامنے آنے لگا۔ یوں اب معاملہ انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی جدوجہد کے بجائے فرقہ وارانہ شکل اختیار کر گیا۔ یوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی مخالف جماعتوں نے جو سیاسی حکمت عملی اختیار کی تھی وہ پسِ پشت چلی گئی جس سے مستقبل میں نقصانات ظاہر ہوئے۔
پاکستان ایران اور عراق کی پراکسی جنگ کا شکار ہوااور ساتھ ہی افغانستان کی جنگ کے اثرات بھی پاکستان کی سیاست اور معاشرت پر پڑے۔ اس جنگ میں زیادہ نقصان کراچی کا ہوا۔ 82ء، 83ء، 84ء اور 85ء تک کراچی شہر کے بہت سے علاقے مہینوں کرفیو کی زد میں رہے۔ پارا چنار میں جو ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہوگی۔
تمام سیاسی جماعتوں نے پارا چنار کے واقعے کی مذمت کی، سول سوسائٹی کی تنظیموں نے پارا چنار کی عوام سے یک جہتی کے لیے مظاہرے کیے، ذرایع ابلاغ پر پارا چنار کے المیے کی خوب تشہیر ہوئی، یوں ایک انسانی المیہ ابھر کر سامنے آیا مگر اچانک ایک مخصوص جماعت کے بعض افراد نے مختلف شہروں میں دھرنے شروع کیے جس کی بنا پر یہ مسئلہ محدود ہوگیا، اگر صرف سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس مسئلے پر احتجاج کرتی رہتیں تو اس کے نتائج زیادہ سود مند ثابت ہوتے۔
سیاسی جماعتیں خیبر پختون خوا سمیت پورے ملک میں احتجاج کرتیں اور یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتیں تو کرم کامسئلہ زیادہ وسیع پیمانے پر عوامی توجہ کا مرکز بنتا اور عوام متحد ہوکر سیاسی تحریک چلاتے ہیں تو اس طرح کی تحریک کے دور رس نتائج برآمد ہوتے ہیں اور اس مسئلے کا مستقل حل نکل آتا ہے، خیبرپختونخوا کی حکومت پر بھی دباؤ بڑھتا‘ خیبرپختونخوا کی سیاسی قیادت پر بھی دباؤ پڑتا‘وفاقی حکومت بھی دباؤ میں آتی اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی دباؤ میں آتیں مگر ایسا نہ ہوا۔
اگر برصغیر میں آزادی کے لیے چلنے والی تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ فرق واضح نظر آتا کہ فرقہ وارانہ بناء پر چلائی جانے والی تحریکوں کے نقصانات زیادہ ہوئے اور عوام میں جو تقسیم ہوئی اس کا شدید نقصان ہوا۔ جب سیاسی جماعتوں نے آزادی کی تحریک شروع کی اور اس میں تمام مکتبہ فکر اور مذاہب کے لوگ شامل ہوئے تو انگریز سرکار کو ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو یہ بات باور کروائیں کہ سیاسی جدوجہد سے ہی تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور سیاسی جدوجہد ہی نان اسٹیٹ ایکٹرز کے عزائم کو ناکا م بنا سکتی ہے۔