کراچی میں دھرنوں کی تاریخ

2010 کی دہائی میں کراچی میں دھرنوں کی سیاست اپنے عروج پر پہنچ گئی۔


زاہدہ حنا January 08, 2025

کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے، ہمیشہ سے احتجاجی تحریکوں اور دھرنوں کا گہوارہ رہا ہے۔ اس شہر کی تاریخ سیاسی سماجی اور معاشرتی مسائل کے خلاف جدوجہد کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہاں کی گلیاں سڑکیں اور میدان گواہ ہیں، ان لاتعداد احتجاجوں کے جوکبھی عوامی حقوق کے لیے کیے گئے کبھی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے۔ کراچی کے دھرنے نہ صرف انفرادی احتجاج تھے بلکہ ایک اجتماعی شعورکی عکاسی کرتے ہیں جو عوام کے دلوں میں بسا ہوا تھا اور اب بھی ہے۔

کراچی میں دھرنوں کی تاریخ کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوا۔ 1950 کی دہائی میں جب ملک ابتدائی مرحلے سے گزر رہا تھا اور کراچی اس وقت کا دارالحکومت تھا، یہاں طلبہ اور مزدوروں کی تحریک نے جنم لیا۔ ان احتجاجوں کی بنیاد تعلیمی سہولیات کی کمی اور حکومتی نااہلی کے خلاف تھی۔ طلبہ نے کراچی یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں دھرنے دیے جب کہ مزدوروں نے اپنی روزگارکی شرائط کو بہتر بنانے کے لیے ہڑتالیں کیں۔ ان مظاہروں نے پہلی بار یہ ظاہرکیا کہ کراچی کا عوامی شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے نہیں گھبراتے۔

1958 میں جنرل ایوب خان کی جانب سے نافذ کردہ مارشل لا کے بعد کراچی کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی آئی۔ مارشل لا کے خلاف احتجاجوں نے کراچی کو ایک نئی راہ دکھائی۔ اس دور میں شہری حقوق آزادیِ اظہار اور جمہوری اقدار کے لیے کئی دھرنے دیے گئے۔ ان میں سے کچھ احتجاجوں پر ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا مگر ان مظاہروں نے عوام کو متحد رکھا اور ان کے حوصلے بلند کیے۔ یہ دھرنے اس بات کی علامت تھے کہ کراچی کے عوام ہمیشہ ناانصافی کے خلاف کھڑے رہے ہیں۔

1970 کی دہائی میں کراچی میں احتجاجی سرگرمیوں میں تیزی آئی جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران اپنے عروج پر پہنچیں۔ اس دہائی میں طبقاتی جدوجہد کا رنگ غالب رہا۔ مزدور طبقہ جوکراچی کی صنعتوں میں کام کرتا تھا، اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتا رہا۔ اس دوران پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی جیسے سیاسی گروپوں نے بھی دھرنوں کے ذریعے اپنی قوت کا مظاہرہ کیا۔ یہ دھرنے اکثر مہنگائی بے روزگاری اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیے گئے۔

1980 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف کراچی میں احتجاجی تحریکوں نے جنم لیا۔ اس دہائی میں جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تحریک (MRD) نے کراچی میں ایک نئی روح پھونکی۔ کراچی کے عوام نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور ان کے دھرنے آمریت کے خلاف ایک مضبوط چیلنج بن گئے۔ اس دور میں کراچی کی سڑکوں پر جوش و خروش دیکھنے کو ملا اور ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ کراچی ہمیشہ جمہوریت کے لیے کھڑا رہے گا۔

اسی دہائی میں کراچی میں لسانی سیاست نے بھی احتجاجی کلچرکو متاثر کیا۔ مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قیام کے بعد اردو بولنے والوں کے حقوق کے لیے کئی دھرنے دیے گئے۔ یہ دھرنے اکثر پرتشدد شکل اختیار کر لیتے تھے مگر ان کا بنیادی مقصد اردو بولنے والوں کے مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ اس وقت کراچی کا سیاسی ماحول شدید کشیدگی کا شکار تھا اور دھرنے اکثر نسلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کے آئینہ دار تھے۔

1990 کی دہائی میں کراچی میں دھرنوں کا تسلسل جاری رہا مگر اس دور میں احتجاج زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشمکش نے کراچی کو سیاسی احتجاج کا مرکز بنا دیا۔ 1992 میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حامیوں نے دھرنوں کے ذریعے اپنے خلاف ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ احتجاج ریاستی طاقت کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کے طور پر دیکھے گئے۔

2000 کی دہائی میں کراچی کے دھرنوں کی نوعیت کچھ تبدیل ہوئی۔ اس دہائی میں دہشت گردی انتہا پسندی اور امن کی بحالی کے لیے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ شہریوں نے مذہبی انتہا پسندی اور طالبانائزیشن کے خلاف دھرنے دیے۔ یہ دھرنے ایک واضح پیغام تھے کہ کراچی کے عوام امن کے خواہاں ہیں اور تشدد کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔

2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک کے دوران کراچی نے ایک بار پھر احتجاج کا منظر دیکھا۔ وکلا تحریک میں کراچی کے عوام نے بھرپور شرکت کی اور یہ دھرنے ایک تاریخی موڑ بنے۔ ان مظاہروں نے نہ صرف عدلیہ کی آزادی کو بحال کیا بلکہ عوام کو ان کے حقوق کے لیے لڑنے کا سبق بھی دیا۔

2010 کی دہائی میں کراچی میں دھرنوں کی سیاست اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ تحریک انصاف کے 2014 کے دھرنے نے کراچی میں سیاسی شعورکو ایک نئی سمت دی۔ عوام نے ان مظاہروں میں بھرپور شرکت کی جو مہنگائی بدعنوانی اور حکومتی نااہلی کے خلاف تھے۔اسی دہائی میں تحریک لبیک پاکستان نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کراچی میں دھرنے دیے۔ ان مظاہروں میں مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ دھرنے اکثر دنوں بلکہ ہفتوں تک جاری رہتے اور ان کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوتا تھا۔

2020 کی دہائی میں کراچی کے دھرنوں نے انسانی حقوق ماحولیاتی تحفظ اور خواتین کے حقوق جیسے موضوعات کو اجاگر کیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے مظاہروں نے ان مسائل کو مزید نمایاں کیا۔ اس دہائی میں خواتین مارچ اور ماحولیاتی تحریکوں نے بھی دھرنوں کی ثقافت کو مزید وسعت دی۔

کراچی میں دھرنوں کی تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ یہ شہر ہمیشہ سے انصاف مساوات اور حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑا رہا ہے۔ یہاں کے عوام نے اپنی جدوجہد کے ذریعے کئی بار تاریخ رقم کی ہے اور ان کے احتجاج بہتر مستقبل کی امید کی علامت ہیں۔

حالیہ دنوں میں پارہ چنار کے حوالے سے ہونے والے دھرنے اس ہی کی ایک کڑی ہے۔ جب جب ظلم اور ناانصافی ہوگی تو کراچی کی عوام اس کے خلاف کھڑے ہوں گے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں