26ویں آئینی ترمیم کے مضمرات پروکلا برادری منقسم ہے جس نے نہ صرف اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری میں ایگزیکٹو کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ہے بلکہ عدلیہ کے اندرونی کام کو بھی متاثر کیا ہے۔ انڈیپینڈنٹ گروپ اس کی حمایت کر رہا ہے جبکہ سپریم کورٹ بار کے موجودہ صدر کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے، دوسری جانب آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی میں حامد خان گروپ کی بڑی تعداد شامل ہے جو اس ترمیم کی سختی سے مخالفت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رؤف عطا نے آئینی بنچ اور سپریم کورٹ پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ایک بیان میں صدر بار ایسوسی ایشن نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کی وجہ دو اہم باتیں ہیں، سب سے پہلے یہ پارلیمنٹ کی اجتماعی مرضی کی نمائندگی کرتی ہے، دوئم اس نے موثر طریقے سے عدالتی حد سے تجاوز کو کم کیا ہے اور آنے والے ہر وقت کے لیے اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو مضبوط کیا ہے۔
آئین میں ترمیم کرنے کی اہل صرف پارلیمنٹ ہی ہے، ترمیم نے عدلیہ کو پہلے سے زیادہ خود مختار بنا دیا ہے اور عام شہریوں کے لیے انصاف کی رسائی میں اضافہ کیا ہے۔یہ غلط دعوی کیا گیا ہے کہ ترمیم نے ایگزیکٹو کوماسٹر آف دی روسٹربنا دیا ہے۔
ہمیں جوڈیشل کمیشن کی موجودہ ساخت، آئینی بنچوں کی تشکیل اور اس کے کام کاج پر مکمل اعتماد ہے۔کسی کو بھی عدالت کو فل کورٹ بلانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی دباؤ کے تحت اس طرح کے کسی بھی اجلاس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا اور اسے وکلا برادری قبول نہیں کرے گی۔ہم چند افراد کی طرف سے اس طرح کے خطوط لکھنے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں کیونکہ ان کے نقطہ نظر کو وکلا برادری پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ مستقبل میں ایسا کرنے کی کسی بھی کوشش کا سخت جواب دیا جائے گا۔
دوسری جانب حامد خان گروپ پر مشتمل آل پاکستان لائرز ایکشن کمیٹی نے ایس سی بی اے کے صدر کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رؤف عطا کا بیان ایگزیکٹو کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور عدالتی آزادی کو مجروح کرتا ہے، رؤف عطا وکلا کے متفقہ نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے جو قانون کی حکمرانی، آئینی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
26ویں ترمیم کی فل کورٹ میں سماعت کا مطالبہ انصاف اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے ہے، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے متوازن ہونے کا دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے۔ ترمیم سے ایگزیکٹو کو ماسٹر آف دی روسٹر بنا دیا گیا ہے، کمیٹی نے وکلا کے اندر اختلاف رائے کو خاموش کرنے کی کسی بھی دھمکی یا کوشش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 19 آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے، جس میں عدالتی آزادی کو مجروح کرنے والے اقدامات پر تنقید اور سوال کرنے کا حق شامل ہے۔