لاہور میں نصب اسموگ کنٹرول ٹاور فضائی آلودگی میں بہتری لانے کیلیےغیرموثر قرار

چین اور بھارت میں بھی  اسموگ فری ٹاورنصب کیے گئے تھے جنہیں بند کر دیا گیا ہے،ماہرماحولیات داورحمید بٹ

لاہور:

پاکستان ایئرکوالٹی ایکسپرٹس گروپ نے  لاہور میں  نصب کیے گئے پہلے اسموگ کنٹرول ٹاور کو  فضائی آلودگی میں بہتری لانے کے لیے غیرموثر قرار دے دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے سائنسی شواہد کا استعمال ضروری ہے۔ مصنوعی بارش بھی آلودگی میں کمی کا کوئی پائیدارحل نہیں ہے۔

پاکستان ایئرکوالٹی ایکسپرٹس گروپ نے گزشتہ سال 11 نومبر کو ایئرکوالٹی مینجمنٹ کے اقدامات کے بارے میں ایک ایڈوائزری جاری کی جو لاہور اور پنجاب میں انتہائی زیادہ پی ایم 2.5 فضائی آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

 گروپ نے سرکاری اعداد و شمار  اور حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اینٹوں کے بھٹوں اور سمیلٹرز کو بند کرنے، اور آلودہ دنوں میں غیر ضروری بھاری ٹریفک کے شہروں میں داخلے کو روکنے کی سفارش کی تھی جس سے شہرمیں فضائی آلودگی میں کمی لائی جاسکتی ہے اور  اسی طرح کی پابندیاں  بیجنگ اور نئی دہلی جیسے شہروں میں لگائی گئی تھیں جن کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے تھے۔

لاہور میں بھی یہ اقدامات چند دنوں کے لیے کیے گئے تھے لیکن اب ایک بارپھر لاہور کی فضا انتہائی غیر صحت بخش یا خطرناک سطح تک پہنچ گئی ہے۔

گروپ کے کوآرڈنیٹر اورماہرماحولیات داورحمید بٹ کا کہنا ہے کہ لاہور میں 2024 میں یومیہ اوسط پی ایم 2.5 کا ارتکاز گزشتہ سالوں کی تاریخی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ رہا ہے، پنجاب حکومت کا اسموگ مٹیگیشن پلان آلودگی کے کلیدی ذرائع کو مناسب طریقے سے حل نہیں کرتا اور مجوزہ اقدامات کے تحت  سائنسی شواہد کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے  لاہور کے علاقے محمود بوٹی میں اسموگ کنٹرول ٹاور  نصب کیا ہے، جو نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔ چین اور بھارت میں بھی  اسموگ فری ٹاورز نصب کیے گئے تھے جنہیں بند کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ آلودگی کو کم کرنے کا ایک ناقابل عمل طریقہ ہے۔

نئی دہلی میں ٹاور کے ماہرانہ جائزے کی بنیاد پر، یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پی ایم 2.5 کو صحت مند سطح تک کم کرنے کے لیے ایسے 47,000 ٹاورز کی ضرورت ہے، جبکہ لاہور میں  جہاں آلودگی کے نسبتاً کم ذرائع ہیں، شہر کو ایسے  20 ہزار  ٹاورز کی ضرورت ہوگی۔

اس طرح کے ٹاورز کو چلانے کے لیے استعمال ہونے والی توانائی ان کو انتہائی مہنگا اور ناکارہ پیمانہ بناتی ہے، جو صنعتی آلودگی کے اخراج، بھٹوں اور گاڑیوں کے دھویں کو کنٹرول کرنے کے اخراجات سے زیادہ مہنگا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے 'مصنوعی بارش' کو بھی ممکنہ حل کے طور پر فروغ دیا گیا تھا، تاہم، جیسا کہ مشاہدہ کیا گیا، یہ نقطہ نظر ناموافق موسمیاتی حالات میں غیر موثر ہے نہ کہ کوئی پائیدار حل ہے۔

پنجاب انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کی ایئرکوالٹی رپورٹس کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ محمود بوٹی کے علاقے میں نصب ٹاور کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔  محمود بوٹی کے علاقے میں 15 سے 31 دسمبر 2024 تک کے ای پی اے مانیٹرنگ اسٹیشنز سے لیے گئے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں اے کیوآئی کی سطح پر دستیاب ڈیٹا کے 14 دنوں میں سے 9 دنوں تک لاہور شہر کی اوسط اے کیوآئی سے اوپر رہی ہے۔  17 سے 26 دسمبر تک محمود بوٹی میں ائیرکوالٹی انڈکس 742 سے 320 کے درمیان ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ اے کیوآئی کی سطح میں بالکل بھی بہتری نہیں آئی اور اس وقت جو تبدیلیاں نظرآرہی ہیں وہ  مقامی سرگرمیوں اور موسم کی وجہ سے ہیں۔

ماہرین کے گروپ کا کہنا ہے کہ پنجاب ای پی اے کی طرف سے جاری کردہ اے کیوآئی سے پتہ چلتا ہے کہ محمود بوٹی سائٹس کو آلودگی کی بلند سطحوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، فضائی آلودگی کے انتہائی نقصان دہ صحت عامہ اور ماحولیاتی نظام کے اثرات کے پیش نظر، حکومت کو ایسی اقدامات کو ترجیح دینی چاہیے جو موثر ہوں اور نمایاں فائدہ  فراہم کریں۔  

پنجاب حکومت کو اپنے موجودہ منصوبوں کی بینچ مارکنگ کرنے کے لیے تحقیق اور ماہرانہ علم کا استعمال کرنا چاہیے، اور پھر ان اقدامات کو لاگو کرنا چاہیے جو اسی طرح کے دیگر معاشی اور گورننس سیاق و سباق میں کامیاب رہے ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ  اسموگ فری ٹاورز جیسی مداخلتوں کا سائنسی طور پر مطالعہ کیا گیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وہ غیر موثر ہیں، لہٰذا، ایسے حل جو منبع پر اخراج کو روکتے ہیں یا کم کرتے ہیں، حکومتی اقدامات کا مرکز ہونے چاہیئں۔

پاکستان ائیرکوالٹی گروپ حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے تاکہ ایسی پالیسیاں تیار کی جائیں جو آلودگی کی بنیادی وجوہات کو حل کریں اور صحت عامہ کی حفاظت کریں۔

Load Next Story

@media only screen and (max-width: 1024px) { div#google_ads_iframe_\/11952262\/express-sports-story-1_0__container__ { margin-bottom: 15px; } }