معیشت کی بحالی کے ثمرات سے عوام محروم کیوں؟

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے


ایڈیٹوریل January 09, 2025

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے دو ارب ڈالر کی ادائیگی موخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ہماری معیشت کے لیے انتہائی خوش آیند ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انھوں نے مزید کہا کہ بجلی کی قیمت کم ہونے تک زراعت، صنعت، برآمدات اور تجارت ترقی نہیں کرسکتیں، معاشی نمو کے لیے بجلی کی قیمت کم کرنا انتہائی ضروری ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے گا۔

 بلاشبہ حکومت نے بہت سی چیزوں کو کنٹرول کرلیا ہے جس سے میکرو اکنامک اشاریوں میں بہتری نظر آئی ہے۔ مستقبل میں اب مستحکم معیشت ہی نظر آرہی ہے۔ پاکستان کو 40 ارب ڈالرز تک کے قرضے ملنے کا امکان ہے، جس میں 20 ارب ڈالر عالمی بینک دے گا، جب کہ باقی 20 ارب ڈالر کے لیے عالمی بینک کے 2 ذیلی ادارے ملک کی معاونت کریں گے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے بعد ملک میں معاشی استحکام دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ دو برسوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشکل وقت میں دو ارب ڈالر کی ادائیگی موخر کرنے کا فیصلہ پاکستان سے محبت کی بہترین مثال ہے۔

 پاکستان کا معاشی مستقبل 2025 میں مختلف داخلی اور خارجی عوامل اور ان سے نمٹنے کے طریقے پر منحصر ہوگا، اگر پاکستان اپنے مالی وعدوں کو پورا کرتا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھتا ہے تو عالمی مالیاتی امداد حاصل کرسکتا ہے، جس سے معیشت میں استحکام آسکتا ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلیوں، توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور دہشت گردی پاکستان کی معاشی راہ میں اہم چیلنجز ہیں، جن کے مؤثر حل کے لیے حکومت کو موسمیاتی لچک، صاف توانائی کی طرف منتقلی کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی۔

اس وقت بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں، ان اداروں میں کئی 100 ارب ڈالر کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 5 سال کے لیے تیار کردہ نجکاری پلان سامنے آگیا ہے، پلان کے تحت 3 مختلف مراحل میں 24 اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔ مالی سال 2024سے 2029 تک حکومت کے ماتحت 24 اداروں کی فروخت کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں قومی ایئر لائنز سمیت پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل، مالیاتی شعبے میں انشورنس سیکٹر، ایچ بی ایف سی اور بینکس، یوٹیلیٹی اسٹورز، صنعت اور توانائی کے شعبے کی کمپنیز شامل ہیں۔

گو حکومت رائٹ سائزنگ کا اعلان کر رہی ہے اور مختلف اداروں کو بند کرنا چاہ رہی ہے، لیکن ایسے میں جو لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں، ان کے لیے کیا کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔ رواں سال اسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے جس میں شرح سود میں کمی یا اضافے کا فیصلہ کیا گیا، رواں مالی سال افراطِ زر کے تیزی سے نیچے آنے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے بھی بنیادی شرح سود میں کمی کا عمل شروع کیا۔ جولائی 2023میں بنیادی شرح سود 21.5 فیصد مقررکی گئی تھی، جب کہ دسمبر 2024 میں بنیادی شرح سود 13 فیصد ہو چکی ہے جب کہ افراط زر 5 سے 6 فیصد کے درمیان ہے۔

ایک طویل عرصے بعد مہنگائی بنیادی شرح سود سے کم ہوئی ہے جس سے بینکوں کو حقیقی منافع کمانے میں فائدہ ہوگا۔ اس وقت حکومتی اعداد و شمار اپنی جگہ پر لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عام لوگوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔

لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گروتھ نہیں ہو رہی، اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول اور عام ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی نہیں بڑھ رہی۔ ماضی میں مہنگائی 38 فی صد تھی جو اب 4 فی صد پر آگئی ہے۔ اس وقت ترقی کی شرح آخری سہ ماہی میں صرف 0.92 فی صد تھی۔ پاکستان کی آبادی بڑھنے کی شرح 2.55 فی صد ہے۔ ایسے میں ہم آبادی کے بڑھاؤ کے حساب سے بھی ترقی نہیں کر رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ گروتھ ملازمتوں کے مواقعے پیدا کرنے اور غربت میں کمی کے لیے ناکافی ہے۔

ملکی معیشت میں مسائل کی بڑی وجہ معاشی سرگرمیوں کے مقابلے میں ٹیکسز کی وصولی کم ہونا ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال مہنگائی میں کمی نہیں آئی بلکہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ابھی بھی عام فرد کے لیے صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اضافہ اس وقت خط غربت سے نیچے ہے یعنی ایک تہائی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ نہیں ہوا اس لیے لوگوں کی آمدن بھی نہیں بڑھی جس کی وجہ سے مہنگائی کی رفتار میں کمی کے باوجود لوگ اب بھی فکر مند ہیں۔ چین کے ساتھ توانائی اور ماحولیات کے شعبے میں تعاون پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ثابت ہوسکتا ہے، جو عالمی سطح پرکاربن ٹیکس کے اثرات سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ رواں برس پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مستحکم رہنے کی توقع ہے، یہ پاکستان میں مہنگائی کا ایک اہم محرک رہا ہے کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور پیداوار اور نقل و حمل کی لاگت بڑھتی ہے۔ امسال خدمات کے شعبے میں قیمتوں میں اضافے کی توقع کی جاسکتی ہے، اس میں بنیادی طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں۔

مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ حکومت نے قرضے حاصل کرنے کے لیے ٹیکسوں کی ایسی بھرمار کی کہ عوام کا جینا مشکل ہو گیا۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات ٹیکس کے دائرے سے ایک بار پھر بچ نکلے اور سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر آن پڑا۔ عوام میں یہ تاثر گیا کہ حکومت بڑے تاجروں کے سامنے بے بس ہے اور ہمیشہ کی طرح قربانی غریب اور تنخواہ دار طبقہ ہی دے گا۔ تمام حکومتی اقدامات سے روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں تاریخی بلندیوں کو چھونے لگیں جب کہ آمدن میں کچھ اضافہ نہیں ہوسکا۔ ایسے میں عوام کو کیا سروکار کہ خسارہ کم ہو رہا ہے یا مہنگائی کی شرح میں اضافہ رک گیا ہے۔

ان کے استعمال کی اشیا تو سستی ہونے کے بجائے مہنگی ہوگئیں۔ ان کے ماہانہ گروسری بجٹ تو دگنے ہوگئے۔ نچلے طبقے کے لیے روزگار کے مواقعے بڑھنے کے بجائے کم ہوگئے۔ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوکریاں دستیاب ہی نہیں۔ بلکہ کئی بڑے ادارے اپنی لاگت کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اسٹاف میں کمی کرنے پر مجبور ہیں۔ لاتعداد افراد دہری نوکریاں کرکے گھر کا خرچہ پورا کررہے ہیں۔ بے شمار والدین نے اخراجات کم کرنے کے لیے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں سے اٹھا کر سستے اسکولوں یا پھر سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروا دیا۔

حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے خود کہا کہ ’’ ترقی تب ہوگی جب سرمایہ کاری ہو گی‘‘ اور حکومت اب دوست ملکوں سے امداد کے بجائے سرمایہ کاری کی طلب گار ہے کیونکہ سرمایہ کاری سے ہی لوگوں کو نوکریاں ملیں گی۔ حکومت کی انتھک کوششوں کے باوجود مقامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پچھلے چند سالوں میں مقامی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرلیا۔

بیرونی سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت مقامی سرمایہ کار کو راغب کرنے میں ناکام ہے تو وہ کیسے یہاں سرمایہ کاری کی حامی بھر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں میں مفاہمتی یاد داشتیں پر دستخط تو ہو رہے ہیں مگر عملی طور سرمایہ کاری ابھی دکھائی نہیں دیتی۔ شرح سود میں کمی کے بعد حکومت امید لگائے بیٹھی ہے کہ شاید سرمایہ کار پیسہ لگانا شروع کردیں۔ خسارے میں جانے والے بڑے ادارے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل وغیرہ کی نجکاری بھی ایک امتحان بنی ہوئی ہے۔ حکومت امید کررہی ہے کہ شاید کوئی بین الاقوامی کمپنی ان اداروں میں دلچسپی ظاہر کرے تاکہ انھیں منافع بخش بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں فروخت کرکے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے۔

اب عوام منتظر ہیں کہ معیشت کی بحالی کے ثمرات انھیں کب ملتے ہیں۔ انھیں تو فائدہ تب ہو گا جب ان کی آمدن بڑھے گی اور ان کے بچوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ وزیر خزانہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال کر سسٹم نہیں چل سکتا مگر بڑے کاروباری افراد کو قائل نہیں کر پائے کہ انھیں ایمانداری سے اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔آئے دن یہ دعوے تو کیے جا رہے ہیں کہ ایف بی آر نے ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کرلیا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے تنخواہ دار طبقے اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر یہ ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوششیں بے سود دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی ترقی کا انحصار نہ صرف حکومت کی پالیسیوں بلکہ عوامی سرمایہ کاری، انسانی ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی میں بھی ہے، اگر حکومت نے طویل مدتی اصلاحات کی طرف قدم اٹھایا اور انسانی سرمائے کی ترقی پر زور دیا تو پاکستان اپنی معیشت کو جدید طرز پر لے جاسکتا ہے اور عالمی مارکیٹ میں اپنی مسابقت کو بہتر بنا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں