اپریل 2022میں پی ٹی آئی حکومت کے آئینی خاتمے کے بعد پی ڈی ایم نے شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیا تھا اور باقی رہنما ان کی کابینہ میں شامل تھے جن میں مسلم لیگ (ن) کے وزیروں کی تعداد زیادہ تھی جو اپوزیشن کی مخلوط حکومت تھی۔ قوم نے بھی شہباز شریف کو اس لیے قبول کیا تھا کہ ان کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کارکردگی تمام وزرائے اعلیٰ سے بے حد بہتر تھی اور عوام کو توقع تھی کہ پہلی بار وہ وزیر اعظم بن کر ملک میں پنجاب جیسی کارکردگی دکھائیں گے اور پنجاب کی طرح پاکستان کی بھی حالت بدل دیں گے۔
پی ڈی ایم حکومت نے دیگر پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی حکومت کو ملک کی خرابی کا ذمے دار قرار دینا شروع کیا جو معاشی طور پر درست بھی تھا۔ پاکستان میں ہر بار یہی ہوتا آیا ہے کہ ہر نئی حکومت گزشتہ حکومت کو ہی معتوب قرار دیتی آئی ہے کہ اس نے ہی ملک کا یہ حال کیا ہے اور نئی حکومت کے لیے بے پناہ مسائل چھوڑکرگئی ہے، نئی حکومت کو سب سے پہلے ان مسائل سے نمٹنا پڑے گا۔
پاکستان میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ گزشتہ سال فروری کے الیکشن میں نگراں حکومت کے بعد وہی شخص دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوا جو نگرانوں سے قبل سولہ ماہ تک ملک کا وزیر اعظم رہا تھا اور نگراں حکومت بھی غیر جانبدار نہیں بلکہ پی ڈی ایم جیسی ہی تھی جو 6 ماہ تک برقرار رہی جس نے انتہائی مشکل فیصلے کر کے مہنگائی بے حد بڑھا کر عوام کا پی ڈی ایم حکومت سے برا حال کر دیا تھا۔ نگراں حکومت بھی پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے من پسندوں کی تھی، اس لیے دوبارہ وزیر اعظم بننے والے میاں شہباز شریف نگرانوں پر سیاسی حکومتوں کی طرح تنقید بھی نہیں کر سکتے تھے۔
1988 کے بعد 2002 میں جنرل پرویز کی صدارت میں مسلم لیگ (ق) کی حکومت بھی 5 سال رہی اور اس سے قبل 1999 تک ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف باری باری حکومتیں کرتے رہے اور دوسری بار اقتدار ملنے پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے کہ انھوں نے ملک کا برا حال کردیا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت نے بھی ماضی کی طرح عوام کے مسائل بے حد مہنگائی، بیڈ گورننس اور تباہ حال معیشت کی تمام ذمے داری پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت اور خصوصاً سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف پر ڈالی کہ انھوں نے اپنے اقتدار میں صرف اپوزیشن سے انتقام لیا اور عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا، آئی ایم ایف کو ناراض کیا اور جاتے جاتے پٹرول اور بجلی کی قیمت کم کرکے جو عوام کو ریلیف دیا وہ ان کا غلط اور ملک کے مسائل بڑھانے کا فیصلہ تھا۔
2022 کی گرمیاں گزرنے کے بعد سردی شروع اور ملک میں سوئی گیس نایاب ہوئی تو اس کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو ٹھہرایا کہ اس نے وقت پر قطر سے سستی گیس نہیں لی اور جب ملک کو مہنگے داموں گیس لینے کی کوشش کی تو وہ نہیں ملی جس کی وجہ سے پی ڈی ایم حکومت کو گیس کا بحران ورثے میں ملا۔ حکومت مجبور ہے کچھ نہیں کر سکتی لہٰذا عوام صبر کریں اور تکلیف اٹھائیں۔
(ن) لیگ کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 2017 میں ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا مگر غلط فیصلوں اور بدانتظامی سے پی ٹی آئی حکومت کے بعد پی ڈی ایم حکومت میں بھی گیس و بجلی کا بحران برقرار رہا جس کا ذمے دار پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم ایک دوسرے کو قرار دیتے رہے اور اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر نگراں حکومت آگئی تھی جس نے عوام کا دونوں سابقہ حکومتوں سے بھی بدتر حال کیا اور عوام کا جینا حرام کیے رکھا اور لوگ نگرانوں کو بھی کوستے رہے۔
فروری 2024 کے الیکشن میں ملک کے حالات بہت برے تھے جسے محسوس کرکے پیپلز پارٹی نے ہوشیاری دکھائی اور حمایت کر کے شہباز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم بنوایا اور معاہدے کے تحت ملک کے صدر، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، بلوچستان کی حکومت اور پنجاب و کے پی کی گورنری لے لی، جہاں (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں اور وفاق میں وزارتیں نہ لے کر کہنا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ اور اتحادیوں کی حکومت ہے جن کی کارکردگی سے ہمارا واسطہ نہیں اور پی پی چیئرمین بلاول زرداری دس ماہ میں ہی (ن) لیگی حکومت پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
حکومت کو دباؤ میں رکھ کر اپنے مطالبے بھی منوا رہے ہیں اور حکومتی دعوؤں کو غلط قرار دے کر پوچھ رہے ہیں کہ اگر ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے تو مہنگائی کیوں کم نہیں ہوئی اور عوام کو ریلیف کیوں نہیں دیا جا رہا۔ اس اصرار میں واقعی دم ہے اور سولہ ماہ کے بعد دس ماہ کی شہباز شریف کی حکومت دو سالوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے پائی ہے جس میں بجلی و گیس انتہائی مہنگی کی گئی مگر حکومت کی تیسری سردیوں میں بھی ملک میں گیس میسر نہیں جس کا بحران شدید ہو چکا ہے۔ حکومت خوش ہے کہ دیگر ملکوں سے قرض مل رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط پر مشروط قرضے دے رہا ہے اور اب عالمی بینک پاکستان کو دس سال میں 20 ارب ڈالر خود دے رہا ہے اور مزید 20 ارب ڈالر نجی قرض بھی دلوائے گا۔ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اور حکومت ملک کو مزید مقروض کرا کر بے حد خوش ہے اور دو سال میں عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے 31 دسمبر کو اڑان پاکستان کا پروگرام بھی دے دیا ہے۔ عوام کے لیے ان کے پاس صرف خوش کن دعوے اور بیانات ہیں جو وہ قوم کو مسلسل طفل تسلیوں کی طرح دے رہے ہیں اور حکومت نے دو سالوں میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
مہنگائی صرف حکومتی اعلان میں کم بتائی جاتی ہے مگر عملاً ایسا نہیں، صورتحال بالکل مختلف ہے۔پہلے پی ٹی آئی حکومت کا بہانہ تھا جو اب بھی مسلسل برقرار ہے تو پی ٹی آئی حکومت کی ناکام کارکردگی حکومت نے دو سالوں میں بہتر کیوں نہیں بنائی۔ دو سال کم نہیں ہوتے اگر حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہتی تو دے سکتی تھی مگر نہیں دیا جا رہا اور نہ ہی حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں مخلص نظر آتی ہے۔