سینیٹ اور طلبہ یونین

طلبہ یونین کی بحالی پر منتخب نمایندوں کا مکمل اتفاق ہے۔



سید مسرور احسن ایوانِ بالا سینیٹ کے رکن ہیں۔ مسرور احسن کی زندگی کے 50 سال جدوجہد کی تابندہ مثال ہیں۔ وہ نوجوانی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے۔ سینیٹر مسرور احسن نے سابق صدر جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں ایک اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے حصہ لیا۔

جنرل یحییٰ خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد میں مصروف رہے۔ مسرور احسن گورنمنٹ کالج ناظم آباد کے نمایاں طالب علموں میں شامل تھے۔ سینیٹر مسرور احسن نے اس وقت پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جب 1977میں پی این اے کی تحریک چل رہی تھی۔ 5 جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق پیپلز پارٹی کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے۔

انھوں نے قومی اسمبلی توڑ کر انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی نے لیاقت آباد سے مسرور احسن کو جماعت اسلامی کے رہنما پروفیسر غفور احمد کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا۔ سینیٹر مسرور احسن نے پیپلز پارٹی کو کراچی میں دوبارہ منظم کرنے کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ اس دوران مسرور احسن کئی دفعہ گرفتار ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے انتخابات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے۔

پیپلز پارٹی کے پہلے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف مسرور احسن نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر مزاحمتی تحریک منظم کی، وہ کئی بار گرفتار ہوئے۔ انھیں دو سال لاہور کے شاہی قلعہ میں گزارنے پڑے۔ مسرور احسن کو 1990میں ایک دفعہ پہلے بھی سینیٹر منتخب ہونے کا موقع ملا تھا مگر انھیں حلف اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسرور احسن 1993کے انتخابات میں بھی بلدیہ ٹاؤن سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان ہونے والا تھا کہ نتائج تبدیل کر دیے گئے۔

مسرور احسن کو گزشتہ سال پیپلز پارٹی نے دوبارہ سینیٹر منتخب کرایا، وہ جب سے سینیٹ کے رکن بنے ہیں طلبہ، اساتذہ، مزدوروں اور غریبوں کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو سینیٹ کی تعلیم سے متعلق قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔

سینٹر مسرور احسن نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے کمیٹی کے اراکین کے سامنے بھرپور دلائل دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین کے ذریعہ نوجوانوں کی لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ مسرور احسن کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کے متحارب گروپوں میں زیادہ تصادم ہوئے۔ ان کا یہ بھی مدعا تھا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے طلبہ یونین کے انتخابات فوری طور پر منعقد کرانے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے واضح کہا کہ ایچ ای سی کو یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کی بحالی پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور ایچ ای سی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو بھیج دیا تھا۔ وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ طلبہ یونین کی بحالی کے حق میں ہیں۔ یوں ایک دفعہ پھر کمیٹی کے تمام اراکین نے طلبہ یونین کی بحالی پر اتفاق رائے کیا۔ 

جب جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو اقتدار سنبھالا تو انھوں نے 1973 کے آئین کو معطل کیا تو پھر طلبہ یونین اور مزدور یونین کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

مزدور تنظیموں کے دباؤ پر مزدور یونین پر تو قانونی طور پر پابندی نہیں لگ سکی مگر خفیہ ہدایات کے تحت مزدور یونین کو عملی طور پر بے اثر کردیا گیا۔ ضیاء الحق حکومت کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ یونیورسٹی میں امن و امان قائم کرنا ہے۔

حقائق سے ظاہر ہوا کہ یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین پر پابندی کے بعد زیادہ ہنگامے ہوئے اور متعدد طلبہ ان ہنگاموں کی نذر ہوگئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رہنما نے 1990میں سپریم کورٹ میں طلبہ یونین پر پابندی کے حکم کو چیلنج کیا۔ اس وقت جسٹس افضل طحہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ انھوں نے طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف اسٹے آرڈر دیا۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت قائم ہوئی تو نئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا عہد کیا۔ سینیٹر رضا ربانی سینیٹ چیئرمین منتخب ہوئے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق اسٹوڈنٹس ایکٹیوسٹ حاصل خان بزنجو نے سینیٹ میں طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد پیش کی۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل نے سینیٹ میں انکشاف کر کے سب کو حیرت زدہ کردیا کہ جسٹس افضل طحہ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں طلبہ یونین پر سے پابندی ختم کردی تھی ۔ چند سال قبل بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے پورے ملک میں جلوس نکالا تو اس وقت کے وزیراعظم بانی تحریک انصاف نے بھی طلبہ یونین پر پابندی ختم کرنے کا عندیہ دیا مگر ان کا وعدہ محض وعدہ ہی رہا۔

 پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ایک قانون منظور کیا مگر کئی سال گزرنے کے بعد بھی اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کے ایک سابق وزیر اسماعیل راہو نے سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا ایک اجلاس بلایا تھا۔

اس اجلاس میں طلبہ یونین کے انتخابات کے انعقاد کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا مگر اس اجلاس میں ایک وائس چانسلر کے سوا تمام دیگر وائس چانسلروں نے طلبہ یونین کی بحالی سے انکار کیا، یوں یہ معاملہ پھر التواء کا شکار ہوا۔ وائس چانسلروں کی طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرانے کی کئی وجوہات سامنے آئیں۔ ایک اہم وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت یونیورسٹیوں میں رجسٹرار، وائس چانسلر اور ڈین کے عہدوں پر جو افراد فرائض انجام دے رہے ہیں وہ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی گئے۔

انھوں نے طلبہ یونین کے ذریعے نوجوانوں کی تربیت کے تجربے کو نہیں دیکھا نہ کبھی طلبہ یونین کی ورکنگ میں حصہ لیا۔ تعلیمی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر رپورٹروں کا کہنا ہے کہ طلبہ یونین کے عہدیدار سنڈیکیٹ، سینیٹ اور مختلف انتظامی فورمز کا حصہ ہوتے تھے۔ طلبہ یونین کے خاتمے کے بعد اب ان اہم اداروں میں طلبہ کی کوئی نمایندگی نہیں ہے، یوں اگر طلبہ نمایندے منتخب ہونگے تو یونیورسٹی کے ان اہم اداروں میں انتظامیہ کا احتساب وائس چانسلر کے لیے ایک اہم مسئلہ بن جائے گا۔ اب یونیورسٹی تو معلومات خفیہ رکھتی ہے۔

طلبہ نمایندوں کی بناء پر یہ معلومات عام طالب علم تک پہنچ سکتی ہیں۔ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد اساتذہ کی انجمن کو خصوصی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ اب اساتذہ یونیورسٹی کے تمام معاملات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک سینئر استاد نے اس صورتحال پر یہ تبصرہ کیا کہ 80 کی دہائی کے بعد طلبہ صرف مطالعہ پاکستان پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔

انھیں جمہوریت کا ارتقاء، بنیادی انسانی حقوق، جمہوری اداروں کی اہمیت اور نوجوان نسل کی جمہوری انداز میں تربیت کے تناظر میں ادراک نہیں ہے۔

اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ طلبہ یونین کے عہدیداروں نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا، اگر طلبہ یونین کا ادارہ دوبارہ قائم ہوا تو کچھ طبقات کے مفادات متاثر ہونگے مگر سینیٹر مسرور احسن کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے، طلبہ یونین کی بحالی پر منتخب نمایندوں کا مکمل اتفاق ہے۔ اس بناء پر امید کی جاسکتی ہے کہ سینیٹر مسرور احسن یہ ہدف حاصل کرلیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں