پاک افغان تنازع ہوشمندی کا متقاضی

اگر افغانستان میں آگ لگے گی تو چنگاریاں پاکستان تک بھی آئیں گی


[email protected]

پاکستان اور افغانستان کے درمیان نفرتوں کی دیوار بڑی تیزی سے بلند اور خلیج وسیع ہورہی ہے، دونوں برادر اسلامی ممالک ماضی قریب میں ایک دوسرے کے دست و بازو ہوا کرتے تھے مگر آج دشمن دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں آپ کو بتایا تھا کہ دونوں ہمسایہ اور برادر اسلامی ممالک کے خلاف یہ جال اور بساط اسلام دشمن قوتوں کی بچھائی ہوئی ہے اور اب بڑی تیزی اور مکاری کے ساتھ اپنی چالیں چل کر دونوں ملکوں کے درمیان نفرتوں کی اس دیوار کو بلند سے بلند تر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

دسمبر کے آخری ہفتے کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان صوبہ پکتیکا میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس دفاعی حملے کے جواب میں افغان حکومت نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی، بعد ازاں پاک افغان سرحد کے قریب کئی پوائنٹس کو نشانہ بنانے کا دعویٰ بھی کیا۔ اس کشیدہ صورتحال کے باوجود الحمدللہ دونوں ملکوں کے درمیان ابھی تک باقاعدہ کوئی جنگ شروع نہیں ہوئی، اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن مادرپدر آزاد سوشل میڈیا پر جو گولہ باری جاری ہے اس سے لگتا ہے جیسے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہوچکی ہے، دونوں طرف کے یوٹیوبرزجھوٹی، من گھڑت اور بے بنیاد خبریں پھیلا کر جلتی پر تیل ڈال کر دشمن قوتوں کا ادھورا کام مکمل کرنے کے لیے ایندھن بن رہے ہیں۔

سوشل میڈیا کی اس گولہ باری سے دونوں ملکوں کی حکومتوں کے علاوہ عوام کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، دشمن قوتوں کی بچھائی ہوئی بساط بہت بڑی ہے اور وہ اس گھناؤنے کھیل میں سوشل میڈیا کے اپنے تنخواہ دار کھلاڑیوں کو بھی میدان میں اتار چکے ہیں، ایسے گھناؤنے کاموں کے لیے بجٹ اربوں ڈالروں پر محیط اور نوٹوں سے بھرے بریف کیسوں کے منہ کھلے ہوتے ہیں۔ کھلی ہنڈیا دیکھ کر انسان تو شرم کھا سکتے مگر انسانی روپ میں موجود درندوں کی کوئی گارنٹی نہیں اس لیے سوشل میڈیا پر وہ اپنا اصل روپ دکھا رہے ہیں۔

میں سارے سوشل میڈیا کی بات نہیں کررہا، اس میں بھی تین طبقے ہیں، ایک سلجھا ہوا ذمے دار طبقہ احتیاط کے ساتھ اپنے وی لاگز کر رہا مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ دوسرا طبقہ اپنے ویورز بڑھانے اور چند ڈالر کمانے کی خاطر جانے انجانے میں دشمن قوتوں کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے لیکن تیسرا طبقہ دانستہ طور پر یہ گھناؤنا کام سرانجام دے رہا ہے، یہ لوگ دشمنوں کی ٹیم کا حصہ اور تنخواہ دار ہیں۔ سرحد کے دونوں پار پاکستان اور افغانستان کے یہ دشمن اور آستین کے سانپ صبح و شام سوشل میڈیا پر اپنے گمراہ کن پروپیگنڈے سے دونوں طرف کے عوام کو گمراہ کر کے نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔

مگر افسوس کہ دونوں طرف ان کو روکنے والا کوئی نہیں، دونوں طرف کی بعض حکومتی شخصیات بھی وضاحتوں کے چکر میں ایسی گفتگو کر جاتی ہیں جس سے تعلقات میں بہتری کی بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ انھیں کون سمجھائے کہ یہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہی نفرتوں کے بیج نہیں بو رہے بلکہ امت مسلمہ کو مضطرب کررہے ہیں، کروڑوں مسلمانوں کے دل توڑ رہے ہیں۔

 ان کی حرکتوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ صورتحال کے اثرات پورے عالم اسلام کے لیے شدیداضطراب کا باعث بن رہے ہیں، عالم اسلام ان دو عظیم ملکوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھ کر دکھی ہوتا ہے۔ فلسطین کے مظلوم مسلمان جنھیں آج پاکستان، افغانستان اور عالم اسلام کے ہر ملک کی تائید و حمایت کی اشد ضرورت ہے وہ جب پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھتے ہیں تو ان کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔

جو کشمیر ی اپنی آزادی کے لیے پاکستان اور عالم اسلام کی جانب دیکھ رہے ہیں‘ وہ اس صورتحال کے علاوہ افغانستان اور ہندوستانی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت سے شدید پریشان ہیں۔ پاک افغان سر حد کے آر پار بسنے والے لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش پاک افغان تجارت سے جڑا ہے، دونوں ممالک کے حالات کشیدہ ہونے سے بارڈر بند ہوچکے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں معطل اور کئی ماہ سے ان کی روٹی روزی کا یہ دروازہ بند ہے، لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔

افغانستان گزشتہ پانچ دہائیوں سے حالت جنگ میں رہنے کی وجہ سے معاشی بد حالی کا شکار اور پاکستان کی معاشی حالت بھی دگرگوں ہے، ایسی صورتحال میں پاک افغان تجارت جو دونوں ملکوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اس کا متاثر ہونا انتہائی افسوسناک ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیاں دوطرفہ تجارت سے حکومتیں اور کاروباری حضرات خطیر رقم کماتے تھے جو آج مکمل طور پر بند ہے۔ بارہ تیرہ سال قبل تک پاک افغان تجارت کا حجم 3.3 ارب امریکی ڈالر تھا جو کم ہوتے ہوتے 2019 میں صرف 1اعشاریہ 30 ارب ڈالر رہ گیا جب کہ2020 میں یہ تجارتی حجم مزید کم ہوکر 369 ملین ڈالرپر آگیا تھا۔

2021میں افغان طالبان کے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد تو اس تجارتی حجم کو آسمان چھونا چاہیے تھا لیکن یہ زمین چاٹ رہا ہے۔ جنوری 2024 میں پاک افغان دو طرفہ تجارت میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی، تجارت میں ماہانہ بنیاد پر 28 فیصد جب کہ سالانہ بنیاد پر دونوں ممالک میں دو طرفہ تجارت میں 16فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ جولائی، اگست 2024میں پاک افغان دوطرفہ تجارت کاحجم ستائیس کروڑ اسی لاکھ ڈالرز رہا جو اب مزید کم ہوگیا ہے۔

ماضی میں افغانستان پاکستانی مصنوعات خصوصاً کپڑے، خوردنی اشیاء، ادویات، مشروبات اور تعمیراتی سامان کا سب سے بڑا گاہک تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے جہاں سے افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی سب سے آسان ہے۔ دونوں ممالک کے مابین موجود عدم اعتماد کی وجہ سے باہمی تجارت میں خاطر خوا ہ اضافہ ہونے کے بجائے گراف خطرناک حد تک نیچے چلا گیا ہے۔

اس سے جہاں افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے وہیں پاکستان میں بھی مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت نے اٹھایا اور وہ افغانستان کی مارکیٹ میں گھس بیٹھا۔ پاکستانی مصنوعات کی جگہ انڈین مصنوعات نے لے لی ہے اور اب بھی بہت سی انڈین مصنوعات کی ایران کی چا بہار پورٹ کے راستے افغانستان کو برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔

دونوں ملکوں کی حکومتوں کو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوطرفہ ٹینشن کے لیول کو ہر حال میں نیچے لانا چاہیے، دونوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں لیکن ہمسائے کبھی نہیں بدلتے۔ دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں سے درد دل کے ساتھ اپیل کروں گا کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں سب کو پتہ ہے اگر پاکستان میں آگ لگے گی تو اس کی تپش سے افغانستان محفوظ نہیں رہ سکتا، اگر افغانستان میں آگ لگے گی تو چنگاریاں پاکستان تک بھی آئیں گی، اس لیے مستحکم پاکستان، افغانستان کی اور مستحکم افغانستان، پاکستان کی ضرورت ہے۔

دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور ان مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی میز سجانا ہوگی۔ امن و استحکام کی بحالی، پائیدار ترقی کے لیے علاقائی تعاون کا فروغ اور روابط کو بڑھانا ہوگا۔ دونوں ملکوں کوان اہداف کے لیے مشترکہ طور پر آگے بڑھنا ہو گا۔

اس کشیدہ صورتحال میں افغانستان کے کراچی میں قونصل جنرل سید عبدالجبار کا بیان خوش آیند ہے، انھوں نے ایک ویب پورٹل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "دونوں ممالک کے مابین چلنے والا تنازع دونوں ممالک اور اس میں بسنے والے عوام کے لیے ٹھیک نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھا تعلق رہا ہے جس کی بنیاد پر ان مسائل کو جلد از جلد حل کرنا چاہیے"۔ پاکستان میں بھی ایسی ہی سوچ موجود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سوچ کو لے کر ہوشمندی کے ساتھ آگے بڑھ کر گفت و شنید سے معاملات کا حل نکالا جائے یہی واحد حل ہے۔ ہوشمندی کا متقاضی  تنازعہ اگر جوش سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو سب پچھتائیں گے یہ جوش نہیں ہوش کے ناخن لینے کا وقت ہے ورنہ دونوں ملکوں کے لیے یہ تنازعہ زہر قاتل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں