فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام عالمی برادری کہاں ہے
ہرسال دو سال بعد اسرائیل فلسطینی مزاحمت کاروں کو’’سبق سکھانے‘‘ کے لیے ممنوعہ ہتھیاروں سے حملے کرکے نسل کشی کرتا ہے
معمولی واقعات کو بہانہ بنا کر فلسطین پر حملہ کرنا اسرائیل کا وتیرہ بن چکا ہے۔ فوٹو : فائل
KARACHI:
شہرغزہ کی پٹی فلسطین ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا گنجان آباد شہر ہے اس میں مجموعی طورپر پانچ ہزار افراد فی مربع کلو میٹر آباد ہیں۔ مقامی آبادی کے علاوہ کئی پناہ گزین کیمپ بھی اس شہر کا بوجھ ہیں، لیکن فلسطینیوں نے انہیں کبھی بھی اپنے لیے بوجھ نہیں بننے دیا۔ وہاں کے باسیوں کے لیے پریشانی کی بات صرف یہ ہے کہ وہ باربار اسرائیلی فوج کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ہرسال دو سال بعد اسرائیل فلسطینی مزاحمت کاروں کو''سبق سکھانے'' کے لیے ممنوعہ ہتھیاروں سے حملے کرکے کلیوں جیسے ننھے منھے بچوں، بے ضرر خواتین، بوڑھوں اور نوجوانوں کا اجتماعی قتل عام کرتا ہے۔ ہربار عالم اسلام ، عرب ممالک اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے طویل خاموشی کے بعد کوئی ہلکی پھلکی مذمت کرکے فلسطینیوں کے رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ وسط جون 2014ء کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہرالخلیل سے تین یہودی لڑکوں کی پراسرا ر گم شدگی اور ان کی مبینہ ہلاکت کے بعد جو صورت حال بن رہی ہے وہ کسی بھی وقت جنگ میں بدل سکتی ہے۔ یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور اسرائیل نے واقعی غزہ کی پٹی پر تباہ کن فضائی حملے شروع کردیے۔ اسرائیل کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت''حماس'' ، اسلامی جہاد اور دیگر عسکری گروپوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر رہا ہے۔
''حفاطتی کنارا'' کے نام سے شروع کردہ وحشیانہ آپریشن میں تادم تحریراسرائیل کو مطلوب کسی ایک بھی قابل ذکر فلسطینی جنگجو کے مارے جانے کی خبرموصول نہیں ہوئی، جبکہ اب تک 438 سے زائدعام شہری شہید اور اڑھائی ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ شہداء میں 60 بچے اور30 خواتین شامل ہیں۔ اگر جنگ بندی نہیں ہوتی تو ان سطور کی اشاعت تک نہ معلوم شہداء کی تعدادسیکڑوں سے نکل کر ہزاروں میں پہنچ جائے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی میں زمینی، فضائی اور بحری سمت سے حملوں کو مزید وسعت دیتا ہے تو انسانی جانوں کا بے پناہ ضیاع ہو سکتا ہے۔
اسرائیل نے محض تین یہودی آباد کاروں کے قتل کی آڑ میں غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کی۔ اس کے سوا صیہونی ریاست کے اس جارحیت کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسرائیل ابھی تک تو یہ بھی ثابت نہیں کرسکا ہے کہ آیا تین یہودی آباد کاروں کے قتل میں واقعی فلسطینی عسکری تنظیم حماس ملوث تھی یا نہیں؟ اگر حماس ملوث نہیں تو فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام کیوں جاری ہے۔
اسرائیل کی تازہ جارحیت نے کچھ ایسے سوالات بھی پیدا کردیے ہیں جن کا تعلق اسرائیل، فلسطینی قیادت، عسکری گروپوں اور عالمی برادری سے مربوط ہے۔ پچھلے کئی سال سے فلسطین کی مخدوش صورت حال کو مسلسل دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر اپنا رعب قائم رکھنے کے لیے وقفے وقفے سے جنگیں مسلط کرنا ضروری سمجھتا ہے۔
اگر صیہونی ریاست فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام نہ کرے اور ان پربم برسانا روک دے تو یہ تاثر ابھرے گا کہ صیہونی ریاست دفاعی طورپر کمزور ہو چکی ہے، یا اس نے فلسطینی عسکری تنٖطیموں کے ساتھ کوئی ساز باز کر لی ہے۔ فوجی کارروائی نہ کرنے کے نتیجے میں فلسطینی مزاحمت کار با لخصوص حماس خود کو عسکری طور پر پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سال دو سال بعد فلسطینیوں کی طاقت کا اندازہ لگانے اور اپنی طاقت کا رعب جمانے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز اور بہانہ ضررور تلاش کرلیتا ہے۔
عالمی برادری بھی اسرائیل کی حیلہ جوئی کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل عام کی درپردہ حمایت کی مرتکب ہو تی ہے۔ امریکا نے تو اسرائیل کی پشت پناہی اور اس کے ہرغلط کام کی وکالت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ لیکن یہ مسلمان اور عرب ممالک، فلسطینیوں پر مظالم پر ان کی زبانوں کو تالے کیوں لگ جاتے ہیں؟ اردن، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ان کے دیگر ہمنوا آخر خاموشی کا روزہ کیوں رکھ لیتے ہیں۔
عام لوگ تو مسلمان ممالک کی مجرمانہ خاموشی کو ان کی درپردہ اسرائیل کی حمایت پر محمول کرتے ہیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کو دو ہفتے ہو چکے ہیں، لیکن کہیں او آئی سی، عرب لیگ یا کسی عالمی سلامتی کونسل کے ہاں فلسطینیوں کے قتل عام پرکوئی آواز نہیں اٹھی۔ یہ رونا ہر دور اور ہر جنگ میں رویا جاتا ہے ۔ ماضی میں ان نمائندہ مسلمان، عرب اور عالمی اداروں کا کوئی مثبت کردار نہیں رہا۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو فلسطینیوں کے اجتماعی قتل کا سب سے بڑا جواز سمجھا جاتا ہے۔
حال ہی میں مشرقی یوکرین میں ملائیشیا کے مسافر طیارے کے حادثے کے بعد امریکی صدر باراک اوباما اور یورپی ٹھیکیداروں نے فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ملائیشین مسافر طیارے کو روسی فوج یا اس کے مخالف باغیوں نے میزائل حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ مسافر طیارے کے حادثے کی عالمی سطح پرتحقیقات ہونی چاہئیں لیکن فلسطین میں اسرائیل کی بربریت اور وہاں مرنے والے کیا حشرات الارض ہیں کہ ان کے قتل عام کی مذمت کا موقع آئے تو امریکا اور یورپ سلامتی کونسل میں مذمتی قرارداد بھی ویٹو کردیں؟
عالمی برادری کے اس منفی کردار کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کا دوسرا پہلو خود فلسطینی جنگجوؤں اور عسکری گروپوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت کارخود بار بار اپنی قوم پر جنگ مسلط کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ ممکن ہے کسی کے نزدیک یہ با ت درست ہو مگراقوام متحدہ نے اپنی متعدد قراردادوں میں غاصب ریاستوں کے زیرتسلط عوام کو غصب شدہ حقوق اور آزادی کے لیے مسلح جدو جہد کا حق دے رکھا ہے۔ فلسطینی67 سال سے آزادی کے جائز اورآئینی حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ عالمی اداروں کی قراردادوں او ر بین الاقوامی معاہدوں میں فلسطینیوں کو بھی غاصب ریاست کے خلاف مسلح جدو جہد کا حق حاصل ہے۔
یہاں تو مسلح کارروائیوں کی بات ہی نہیں ہو رہی ہے۔ فلسطینی کئی سال سے کافی حد تک مسلح کارروائیوں سے دور ہو چکے ہیں۔گوکہ حماس اور بعض گروپوں نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ بھی کیا ہے لیکن حماس کی جانب سے اسرائیل پر صرف دفاعی حملے کیے ہیں۔ جنگ کا آغاز ہمیشہ اسرائیل کی جانب سے ہوا، فلسطینیوں کو اپنے دفاع میں میدان میںاترنا پڑا ہے ۔ پچھلے آٹھ برسوں میں اسرائیل تین مرتبہ غزہ کی پٹی کو تاراج کر چکا ہے۔ تینوں مرتبہ جنگ کا آغاز فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے نہیں بلکہ خود صیہونی ریاست کی جانب سے ہوا ہے۔
سنہ 2008-9ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر جنگ اس لیے مسلط کی تاکہ حماس کی حکومت کو ختم کیا جاسکے، البتہ اس جنگ میں اپنے ایک فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کا بہانہ بھی بنایا گیا۔ 22 روز تک جاری رہنے والی اس جارحیت میں 1500 معصوم فلسطینی شہید اور 7000 زخمی ہوئے۔ حماس کی حکومت گری اور نہ ہی یرغمال بنایا گیا فوجی گیلاد شالیت بازیاب کرایا جاسکا۔ یوں اسرائیل کو اس جنگ میں منہ کی کھانا پڑی تھی۔
2012ء میں اسرائیلی ریاست نے غزہ پر اس وقت فوج کشی کی جب صیہونی فوج کی دراندازی کے جواب میں اسلامی جہاد کے مزاحمت کاروں نے یہودی کالونیوں پر کچھ راکٹ فائر کردیے تھے۔ گوکہ یہ محدود کارروائی تھی لیکن اس میں بھی ایک سو نہتے فلسطینیوں کا خون کیا گیا اور آخر کار مصری حکومت کی مساعی سے دوبارہ جنگ بندی ہوگئی۔
اپریل 2014ء میں اسرائیل کے انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کی کابینہ کے فلسطینیوں کے خلاف تیور اس وقت بدلنے لگے تھے جب فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیل کے درمیان نو ماہ تک جاری رہنے والے نام نہاد مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوگئے او ر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے حماس کے ساتھ صلح کرلی۔ معاملہ حماس اور الفتح کے درمیان صلح اور قومی حکومت کے قیام سے بگڑا ، جس کے بعد اسرائیلی لیڈرشپ کے رویئے سے صاف دکھائی دے رہا تھاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی جنگ مسلط کرنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔ یہ خیال درست ثابت ہوا اور اسرائیل تین یہودی آباد کاروں کے اغواء اور قتل کا ڈرامہ رچا کر فلسطینیوں پر چڑھ دوڑا۔
حماس نے جنگ بندی تجویزکیوں مسترد کی؟
غزہ جنگ کے حوالے سے پڑوسی ملک مصر کا شرمناک کردار ایک الگ سے مضمون کا متقاضی ہے۔ اس باب میں صرف اتنا بتانا ضروری ہے کہ 8جولائی سے غزہ کی پٹی پر جاری حملوں کے بعد مصر کی فوجی حکومت نے فلسطین، اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہد ے کے لیے ایک فارمولا پیش کیا۔
یہ معاہدہ کیا تھا؟ نہایت بزدلانہ شرائط پر مبنی ایک دستاویز تھی جس میں اسرائیل کو مظلوم ا ور فلسطینیوں کو ظالم باور کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنگ بندی معاہدے میں قرار دیا گیا کہ حماس او ر دیگر تمام فلسطینی عسکری گروپ خود کو غیر مسلح کردیں، اسرائیل پر راکٹ حملے روک دیں اور آزادی کی جدو جہد ختم کردیں۔ ظاہر ہے کہ یہ شرائط اسرائیلی ایجنٹ کے حق میں ہیں لیکن فلسطینیوں کے لیے یہ کیسے قابل قبول ہو سکتی ہیں۔ حماس کی جانب سے جنگ بندی تجویز مسترد کیے جانے کی ایک بنیادی وجہ معاہدے میں بزدلانہ شرائط ہیں۔
جہاں تک جنگ بندی کا سوال ہے تو اسرائیل کے ایک اخبار''معاریف'' نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حماس نے اسرائیل کو دس سال کے لیے 10 شرائط پیش کی ہیں۔ ان دس شرائط میں غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنا، وسط جون کے بعد مغربی کنارے سے کریک ڈاؤن میں حراست میں لیے گئے 700فلسطینیوں کی رہائی ، غزہ اور دوسرے فلسطینی شہروں کے درمیان زمینی رابطوں کی بحالی، فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کی ادائیگی کی مکمل آزادی اور غزہ میں بین الاقوامی ہوائی اڈا اور ایک بندرگاہ قائم کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ فلسطینی ماہی گیروں کو 10 ناٹیکل میل تک سمندر میں ماہی گیری کی اجازت شامل ہے۔ گوکہ حماس کی جانب سے باضابطہ طورپر ان شرائط کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی، تاہم یہ تمام شرائط قابل عمل ہیں۔
جہاں تک حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدہ مسترد کرکے اسرائیل کے زمینی حملے کا چیلنج قبول کرنے کا سوال ہے تواس کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ حماس فیلڈ میں گوریلا کارروائیوں کے لئے پوری طرح تیار ہے اور وہ اسرائیلی فوج کو زمینی آپریشن میں غزہ میں پھنسانا چاہتی ہے۔
حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس اڑھائی لاکھ جنگجو موجود ہیں اور وہ اسرائیلی فوج کا بموں سے استقبال کریں گے۔ غزہ میں زمینی آپریشن کے ایک روز میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوج پر کئی گوریلا کارروائیاں کی ہیں۔ اسرائیل کا P2 نامی ایک ٹینک تباہ کردیا، گوریلا حملوں میں 14اسرائیلی فوجی ہلاک اورمتعدد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا رہا ہے کہ حماس اسرائیل کو زمینی آپریشن میں پھنسانا چاہتی ہے۔
اب جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں فلسطین میں اطلاعات رسانی کے مستند ادارے''مرکزاطلاعات فلسطین'' نے حماس کی جانب سے جنگ بندی کی ایک تجویز کا انکشاف کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ تجویز کسی حد تک غزہ کی پٹی پراسرائیلی جارحیت کو بند کرانے میں کردار اد کرسکے۔ سیز فائر کی تجویز میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کا محاصرہ فوری ختم کردے، تمام راہ داریاں کھول دے، غزہ میں داخل فوج واپس بلائے، سنہ 2010ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پائے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے مطابق جن فلسطینیوں کو رہا گیا تھا ۔
ان کی دوبارہ گرفتاری روک دے اور جنہیں دوبارہ حراست میں لیا گیا ہے انہیں رہا کردے۔ جنگ بندی میں امریکا پرزور دیا گیا کہ وہ اسے نافذ العمل بنانے اور اسرائیل کو اس کا پابند بنانے کے لیے ضمانت فراہم کرے۔ اب تک یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ یہ تمام قابل قبول شرائط ہیں اور فلسطینیوں کو اس نوعیت کے مطالبات کا حق حاصل ہے۔
اب یہ عالمی برادری کا بھی امتحان ہے کہ آیا وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جنگ بندی کی تجویز کو عملی شکل دینے میں کتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ عالمی برادری کو یہ فیصلہ جلد از جلد کرنا چاہیے کہ کون جارح اور کون مظلوم ہے اور میمنے اور بھیڑیے کی لڑائی میںکسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے؟