آج ہمارا موضوعِ سخن ’’تربیت ِ اولاد‘‘ ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد کی تربیت پر خاص طور پر توجّہ دیں تو یقیناً بگاڑ کے بہت سے دوسرے اسباب من جملہ وراثت، حرام لقمے وغیرہ کا اِزالہ کیا جاسکتا ہے۔
گویا والدین اگر اپنے بچے کو شکمِ مادر میں حرام لقمے سے نہ بچا سکے ہَوں اور اُنھیں وراثت میں بُرائیوں کے منتقل ہونے کا خدشہ ہو تو اب بھی اگر توجّہ کریں تو اپنے بچّے کی زندگی کا رُخ سعادت مندی کی طرف موڑ سکتے ہیں، یعنی اب انھیں مناسب ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ اب انھیں غلط دوست اور بد اَخلاق ساتھی سے بچانا ہوگا، اب انھیں بے دِین معلّم اور اُستاد سے محفوظ رکھنا پڑے گا۔ جس طرح بھوک اور پیاس بچّے کا پہلا احساس ہوتا ہے، اُسی طرح حقیقت جُوئی اور کسی شے کو حاصل کرنا بھی اُس کی حِس شمار کی گئی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ حقیقت جُوئی کی حِس کو غلط ماحول سے بچا کر صحیح رُخ دیں، مذہب اور دِین پرستی انسان کی فطرت کا حصّہ ہے، لہٰذا والدین کو شروع ہی سے پیار و محبت کے بھرپور انداز میں نماز، روزہ، قرآن اور دیگر عبادتوں کا شوق دِلانا ہوگا تاکہ وہ خود بہ خود اپنے آپ کو نماز اور دیگر عبادتوں کا عادی بنائے۔
والدین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بچّے کی تربیت میں مذہب سب سے بڑا یاور و مددگار ہے اور بچّوں کی تربیت سے متعلق نِکات اور باریکیاں اِتنی زیادہ ہیں، جن کی تفصیل کے لیے ضخیم کتابوں کی ضرورت ہے، پھر بھی والدین کی توجّہ کے لیے درج ذیل نِکات پیش ہیں، اُمید ہے کہ والدین خصوصاً ’’ماں‘‘ اِن نِکات پر غور کرے اور اِنھیں اپنا شِعار بنائے۔ اولاد کی تربیت کے لیے چالیس اَخلاقی اور دِینی نِکات جو احادیثِ مبارکہ سے اخذ کیے گئے ہیں، درج ذیل ہیں:
1: تحفہ دینا ہوتو پہلے بیٹی کو دیا جائے۔
2: بچّوں سے بچّوں کے انداز میں کھیلا جائے۔
3: روایت ہے، مفہوم: ’’اپنے بچّوں کو اُن کے رونے پر نہ مارو، کیوں کہ اُن کا رونا کبھی اﷲ کی وحدانیت کی شہادت اور کبھی شہادت و گواہیِ رسولِ اکرم ﷺ کے لیے اور کبھی ماں باپ کے لیے دُعا ہے۔‘‘
4: روایت ہے، مفہوم: ’’اپنے بچّوں کو بوسہ دو، کیوں کہ ان کو بوسہ دینا بہشت میں درجات کی بلندی کا سبب ہے۔‘‘
5: بچّوں کو پہلے سلام کرکے اُن کی شخصیت کو اہمیت دو۔
6: بچّوں کا اُن کے بچکانہ کاموں پر مذاق نہ اُڑاؤ اور اُن کے کاموں کو احمقانہ نہ کہو۔
7: بچّوں پر زیادہ روک ٹوک نہ کرو۔
8: بچّوں کاا حترام کرو، چاہے اپنے کاموں کو ترک کرنا پڑے۔
9: جو وعدہ کرو، اُس کو ضرور پُورا کرو۔
10: بچّوں کو عادت ڈلوائیں کہ اچانک بڑوں کے کمرے میں داخل نہ ہَوں، بل کہ اجازت لے کر آئیں۔
11: جب بیٹی چھے سال کی ہو جائے تو اسے نامحرموں کی گود میں نہ بیٹھنے دیں۔
12: بچّیوں کو نیم عریاں کپڑے پہنانے سے گریز کریں۔
13: بچّوں کو نماز کی طرف رغبت دلائیں۔
14: بچّوں کو ڈِھیٹ نہ بنائیں۔
15: دُوسروں کے سامنے بچّوں کی بے عزّتی (ڈانٹ پھٹکار) نہ کریں۔
16: اپنے بچّوں کے نیک و صالح بننے کی ہمیشہ دُعا کریں۔
17: بچّوں کی جائز خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
18: بچّوں کو باایمان بنانے کی کوشش کریں۔
19: بچّوں کو سچ بولنے کی تلقین کریں۔
20: ڈرا کر تربیت نہ کریں، کیوں کہ ڈرانے دھمکانے سے بچّے نفسیاتی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
21: بچّے پر نوازش اور محبت نچھاور کریں۔
22: بچّوں کو گناہ سے نفرت دِلائیں اور نیک کاموں کی ترغیب و شوق پیدا کرائیں۔
23: چھے سال کی عمر سے بچّوں کے بستر الگ کردیں، چاہے دو بہنیں ہی ہَوں۔
24: بچّے کو گھر میں آزادی سے کھیلنے دیں، لیکن گھر کے باہر کھیلنے پر اُسے مناسب باتیں سمجھائی جائیں، لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اُسے فقط گھر میں قید کردیا جائے۔
25: بچّوں کے سوالات کا ضرور جواب دیا جائے یہاں تک کہ وہ مطمین ہو جائیں۔
26: بچّوں کے لیے انبیائؑ کے چھوٹے چھوٹے قصّے وقتاً فوقتاً بیان کیے جائیں۔
27: اگر بچّہ زیادہ شرارتی ہے تو مطمین رہیں کہ بچّہ بڑا ہو کر بہت ذہین نکلے گا، بس اُس کی شرارت کو برداشت کریں اور کوشش کریں کہ اُس کی شرارتوں سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
28: بچّوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا پابند کریں اور نو سال کی عمر سے روزے کی پابندی کرائیں۔
29: اپنے بچّوں کو قرآن سے اُنسیت دِلائیں اور کوشش کریں کہ جتنی بچّے میں صلاحیت ہے ، اُس کے مطابق ہی سہی اُس کو چند سُورے ضرور حفظ کرائیں، کیوں کہ قرآن نور ہے اور جہاں قرآن آجاتا ہے ، وہاں شیطان کا گزر نہیں ہوتا اور قرآنِ مجید کی ہزارہا خصوصیات و کمالات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ قرآن حفظ کرنے سے حافظہ قوی ہو جاتا ہے اور انسان کی غیر معمولی ذہانت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ حفظِ قرآن، قرأتِ قرآن اور قرآن پر عمل کی طرف توجّہ دلائی جائے۔
30: اپنے بچّے کا کسی دوسرے بچّے سے موازنہ نہیں کریں اور بچّے کا دل نہ دُکھائیں کہ جیسے اکثر والدین بچّے سے کہتے ہیں کہ ’’فلاں کو دیکھو، کتنا مؤدّب ہے اور تم ہو کہ.....۔‘‘
31: پانچ سال سے کم عمر بچّوں کو نہ کہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، کیوں کہ اِس عمر تک بچّے کو جھوٹ کا پتا نہیں ہوتا، بل کہ وہ یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ ایسا ہو گیا ہے اور اپنی طرف سے بول رہا ہوتا ہے۔ اُسے حکمت سے سمجھائیں۔
32: اکثر بچّے موت کے لفظ سے ڈرتے ہیں، لہٰذا اِس حقیقت کو آسان انداز سے بچّے کو بیان کیا جائے۔
33: بچّوں کی چُھپی ہوئی صلاحیتوں کو اُبھارا جائے اور اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
34: بچّوں کو بہت زیادہ مادّیات (دُنیاوی چیزوں) کی طرف راغب نہ کیا جائے اور نہ اِن سے بالکل دُور کردیا جائے، بل کہ کوشش کی جائے کہ کچھ چیزوں کو دیا جائے اور کچھ سے روکا جائے۔
35: بچّوں کو دُوسروں کی چیزوں کے استعمال سے روکا جائے اور اُنھیں عادت ڈالی جائے کہ بغیر اجازت کسی کی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں۔
36: امانت داری کیا ہے، بچّے کو چھوٹی چھوٹی مثالوں سے امانت اور اُس کی حفاظت کے بارے میں بتایا جائے۔ مثال کے طور پر بچّہ کسی کی کاپی یا پینسل امانتاً لیتا ہے تو وہ کیسے اُس کی حفاظت کرے اور اُسے واپس کرے۔
37: بچّے میں نظم و ضبط اور وقت کی اہمیت محسوس کرنے کی عادت ڈالی جائے۔
38: مائیں بچّوں کے کھانے کی فرمائشوں کو اِتنی اہمیت نہ دیں کہ بچّہ فقط مخصوص اور چند غذاؤں کے کھانے کا عادی بنے، بل کہ اُسے باور کرائیں کہ تمام غذائیں خدا کی نعمت ہیں اور اُسے ہر کھانا کھانے کی عادت ڈالیں۔
39: یہ تمام نِکات اُس وقت اثرپذیر ہَوں گے جب ماں باپ خود اِن پر عمل پیرا ہَوں گے۔ پس پہلا قدم والدین کا خود سازی یعنی اپنی تربیت ہے۔ اپنی اصلاح ہے، جب ماں باپ کا اَخلاق بہترین ہوگا، تبھی وہ بچّوں کی راہ نمائی کرسکیں گے، ورنہ ہم کتنا بھی چاہیں، بچّہ نیک بنے اور خود نیک صفات سے محروم و عاری ہَوں تو پھر بچّے پر کچھ بھی اثر نہیں ہوگا۔
40: بچّوں کی تربیت اور اُنھیں واجبات کی تعلیم دینا والدین پر فرض ہے اور جو والدین اِس فرض کو ادا نہیں کرتے، انبیائے کرامؑ نے ان کو ناپسند اور موردِ ملامت قرار دیا ہے۔
آئیے! ہم سب مل کر کوشش کریں کہ اپنے بچّوں کی تعلیماتِ اسلامی کی روشنی میں تربیت کریں تاکہ وہ اہلِ بیتؓ و اصحابِ نبویؐ کے محب بنیں اور اپنی دُنیا و آخرت کو سنوار سکیں۔ اپنے دِین و مذہب کی تبلیغ کرسکیں، نیز اپنے والدین کی بخشش کا ذریعہ قرار پائیں۔ آمین