گریٹر اسرائیل کی سازش

اسرائیل کے قیام سے یہودیوں کو ایک مذہبی ریاست کا تصور دوبارہ سے ملا


ایڈیٹوریل January 10, 2025
فوٹو : فائل

سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے اردن، لبنان اور شام کے مختلف علاقوں پر مبنی گریٹر اسرائیل منصوبے پر مبنی نقشے جاری کرنے پر مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے، دوسری جانب اسرائیلی فورسز نے غزہ میں قتل عام کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نومولود بچوں اور خواتین سمیت مزید 51 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ اگر میرے صدارت سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں کیے جاتے، تو مشرق وسطیٰ میں قیامت برپا ہوجائے گی۔

 ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ میں لگی آگ پھیلتی جا رہی ہے، اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کی تکمیل کے لیے جلد مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے جا رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ اسرائیل نے تو بیک وقت کئی جنگی محاذ کھول رکھے ہیں۔

ایسے میں مشرق وسطیٰ کی نئی صورت گری کا امکان اسرائیل کیوں نہیں دیکھنا چاہے گا؟ رواں برس میں مشرق وسطیٰ میں بہت سی چیزیں اظہر من الشمس ہیں۔ نوشتہ دیوار کی صورت موجود ان حقیقتوں کو تقریباً ہرکوئی سمجھ رہا ہے۔ ہر ملک اور علاقے میں اس کا ادراک پوری طرح موجود ہے۔

 کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے فوراً بعد نیتن یاہو نے X ویب سائٹ پر اپنے اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ پوسٹ کیا اور لکھا ’’ میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی آپ ( اسرائیلی عوام) اور ملک کے لیے لڑنا ہے۔‘‘ نیتن یاہو نے جو نقشہ دکھایا تھا، اس میں جن ممالک کو سبز رنگ میں رکھا گیا تھا۔

ان میں مصر، سعودی عرب، اردن، امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش تھے اور یہ ہم جانتے ہیں کہ مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ عشروں پرانے تعلقات ہیں جب کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے حالیہ ہی غیر قانونی صیہونی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔ اس بیان کو اگرآپ باریک بینی سے دیکھیں تو سب سمجھ آجائے گا کہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں جہاں وہ بزور طاقت اپنے مقاصد کا حصول کرسکتا ہے وہ کررہا ہے اور جہاں وہ روایتی عیاری اور مکاری کا سہارا لے سکتا ہے تو وہ بھی لے رہا ہے۔

 اسرائیل ایک جانب عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو دوسری جانب تنازع کی اصل وجہ مسئلہ فلسطین کوکوئی اہمیت ہی نہیں دی جا رہی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ غیر قانونی ریاست اسرائیل مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے جامع اور منصفانہ حل کو قبول نہیں کرنا چاہتی، جس میں فلسطینی سر زمین پر مکمل خود مختاری کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے، جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔ بربادی کی اس داستان کا آغاز پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدوں اور مشرقِ وسطیٰ کی تشکیلِ نو سے ہوا۔ فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔

صدیوں سے مسلمان عیسائی اور یہودی اس خطے میں امن و سکون سے رہتے تھے،کبھی مذہبی منافرت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر سلطنتِ عثمانیہ سکڑ کر موجودہ ترکیہ تک محدود ہوگئی۔ اردن اور سعودی عرب کے ساتھ شام اور عراق کو ایک ہی خاندان کی مختلف شاخوں میں تقسیم کر کے بادشاہتیں قائم کر دی گئیں۔

صہیونی تحریک 19 ویں صدی کے آخر میں متمول اور تعلیم یافتہ یہودیوں میں مقبول ہوئی۔ ایک منظم اور خفیہ منصوبہ بندی سے زمین اور جائیدادیں عربوں اور فلسطینیوں سے خرید کر یہودیوں کو بسایا گیا۔ فلسطین کو وقف بنا کر انتظام چلانے کے لیے برطانیہ کے حوالے کیا گیا۔ یہ معاملہ بالفور معاہدے سے شروع ہوا، جس میں یہودیوں کے لیے فلسطین میں قومی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے جنگی عزائم یہ ہیں کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو اردن میں دھکیل کر مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرلیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر بھیج کر وہاں یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کر کے ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا صہیونی خواب پورا کیا جائے۔ یاہو کے اس مبینہ منصوبے کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

لبنان میں اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصورکی بازگشت ہے۔ غزہ کی زمینی کارروائیوں میں کچھ سوشل میڈیا پوسٹس میں یہ دعویٰ تھا کہ بعض اسرائیلی فوجی اپنے یونیفارم پر ’ گریٹر اسرائیل‘ کے نقشے کا بیج پہنے ہوئے تھے۔ ماضی میں انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء بھی اس کا ذکر کرتے رہے ہیں۔

’دا پرومسڈ لینڈ‘ (وعدہ شدہ زمین) کے نقشے میں فلسطین، لبنان، اردن، عراق، ایران، شام، مصر، ترکی اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’ لینڈ آف اسرائیل‘ کا نام دیتے ہیں۔

1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا تو اسرائیلی سابق وزیر اعظم مناہم بیگن نے کہا تھا کہ فلسطین کی یہ تقسیم غیر قانونی ہے۔ یروشلم ہمارا دارالحکومت تھا اور رہے گا اور ایرٹز اسرائیل کی سرحدوں کو بحال کیا جائے گا۔

غیر قانونی اسرائیلی آباد کار، فلسطینیوں کو بے گھرکر کے مغربی کنارے میں نئی بستیاں، اسرائیلی فوج ( آئی ڈی ایف) اور نیتن یاہو کے وزراء کی حفاظت میں قائم کر رہے ہیں۔ انھیں ’’ غیر ریاستی عناصر‘‘ کہا جاتا ہے لیکن انھیں کوئی نام بھی دیں، حقیقت یہی ہے کہ انھیں براہ راست نیتن یاہوکی حمایت حاصل ہے جنھوں نے 5300 نئی بستیوں کے قیام کی منظوری دی تھی۔

اسرائیل کے قیام سے یہودیوں کو ایک مذہبی ریاست کا تصور دوبارہ سے ملا، یہیں سے اس بحث کا آغاز ہوا کہ ہم نے اپنی مذہبی ریاست قائم کر لی ہے لہٰذا ہم اسے روایتی حدود تک پہنچائیں گے۔ یہ فینٹسی خصوصاً ان طبقات میں ہے جو پوری دنیا میں یہودیوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں۔ اسی لیے با اثر اسرائیلی لیڈرزکی ایک بڑی تعداد اس خواب کی تعبیر میں لگی ہے۔ گریٹر اسرائیل ایسی فینٹیسی ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کے لیے ’سیاسی لائف لائن‘ ان کے نظریات کو زندہ رکھنے اور ان کے لیے معاشرے میں اپنی اہمیت دکھانے میں کارگر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ایک ایک ملک کی قیادت یہ سب کچھ سمجھتی ہے، مگر اس بارے میں کسر نفسی یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔

یہ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبا لینے والی بات ہے۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد آمد ہے۔ محض دس دن بعد وہ بطور امریکی صدر حلف اٹھا کر وائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔ ٹرمپ کی شخصیت میں غیر معمولی اعتماد انھیں دھونس اور تحکم کی طرف لے جاتا ہے، اس لیے وہ بطور امریکی صدر اپنی طاقت اور طاقتور لہجے کا بھرپور استعمال کریں گے۔

بظاہر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جنگوں سے جس بیزاری کا اظہار کیا ہے، مشرق وسطیٰ کے لیے بھی وہ اسی انداز سے سوچیں گے۔ فطری بات ہے کہ جو اہمیت امریکا و یورپ کے لیے یوکرین کی ہے وہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی عرب ملک یا فلسطین کی ہرگز نہیں ہو سکتی،کیونکہ مشرق وسطیٰ میں حالات جس قدرخراب ہوں گے، اس سے اسلحے کی فروخت سے کمائی کا بھی امکان اتنا ہی بڑھتا رہے گا۔

مشرق وسطیٰ میں مسائل کی حیثیت امریکا اور یورپ کے لیے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘ والی ہے۔ اسی لیے بہت سے مبصرین کے خیال میں مشرق وسطیٰ میں امن، چین اور استحکام عالمی طاقتوں کی ضرورت نہیں ہو سکتا۔ بہرحال غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے بارے میں امریکی حکمت عملی کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اس جنگ کے خلاف سلامتی کونسل میں چار قراردادوں کو امریکا نے ویٹو کیا ہے۔ اب نو منتخب امریکی صدر نے بھی جو بات کھل کر اور بہ تکرار کہی ہے، وہ جنگ بندی کے لیے اجتماعی اپیل نہیں ہے، بلکہ حماس کے لیے دھمکی کی صورت سامنے آئی ہے کہ 20 جنوری سے پہلے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی دو مرتبہ دی ہے۔

ابھی 20 جنوری آنے میں دو ہفتے باقی ہیں۔ جنگیں روکنے کا دعویٰ اپنی جگہ مگر حقیقت اپنی جگہ۔ اپنے پہلے دور صدارت میں بھی ٹرمپ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرچکے ہیں۔ اسرائیل کی انتہا پسند حکومتی اتحادی جماعتیں ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کو اسرائیل کے لیے ایک غیر معمولی موقعے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

یقیناً یہ اولین درجے میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرنے اور ثانوی درجے میں پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی اثرات یا عمل داری کا پھیلاؤ کرنا چاہیں تو یہ بات ہرگز اچنبھے کی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ایسے ماحول میں جب آس پاس سے کوئی مزاحمت کرنے والا ملک نقشے پر موجود نہ ہو۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان یہ سوچ ہونا فطری ہے۔ اس لیے ’گریٹر اسرائیل‘ کا اسرائیلی خواب ہو یا ’گریٹر مشرق وسطیٰ‘ کا امریکی نقشہ، دونوں ایک ہی ہدف کے الگ الگ اظہار ہیں۔

 نیتن یاہو کا خیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پر ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن دنیا کی نظر میں ان کا یہ عمل خطے کو تباہی اور جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ امریکا سمیت عالمی برادری نوے کی دہائی سے اوسلو معاہدے کے تحت خطے میں دو ریاستوں کے قیام کے لیے کوشاں رہی ہے، لیکن دنیا کی نظر میں نیتن یاہو کا یہ اقدام فلسطینیوں کا اپنی علیحدہ ریاست کا دیرینہ خواب چکنا چورکرنے کے مترادف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں