فوڈ سیکیورٹی کے نئے نظام کی ضرورت
پاکستان کی قدرے مستحکم ہوتی معیشت ماضی کی مانند آج بھی ’’آئی ایم ایف‘‘ کے سہارے چل رہی ہے، عمومی طور پر جب بھی آئی ایم ایف پلان لیا جاتا ہے تو یہ عالمی ادارہ ایسے ٹیکسز اور پالیسیوں کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے جو عوام پر بوجھ بڑھانے کا سبب بنتے ہیں مگر حالیہ آئی ایم ایف پلان میں ایک ایسی شرط پوری ہوئی ہے جو پاکستان کی زراعت اور زرعی صنعتوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پاکستان نے گندم ، گنا سمیت دیگر زرعی اجناس کی ’’امدادی قیمت خرید‘‘ کا تعین ختم کردیا ہے ۔ ماضی میں زرعی اجناس کی امدادی قیمت خرید کے تعین پر نہ تو کسان خوش ہوتے تھے اور نہ ہی صنعتی حلقوں کو یہ راس آتی تھی،ہر کوئی شکوے شکایات کرتا تھا۔ پاکستان کی دوسری بڑی فصل ’’گندم‘‘ ہے اور پنجاب ملک بھر میں سب سے زیادہ(تقریبا2 کروڑ ٹن سے زائد) گندم پیدا کرنے والا صوبہ ہے۔
کئی دہائیوں تک حکومت گندم کی امدادی قیمت خرید میںکسانوں سے زیادتی کرتی رہی ہے کیونکہ سرکاری محکموں اور اداروں نے گندم خریدنا ہوتی تھی لہذا مالی بوجھ کم رکھنے کے لیے قیمت کم مقرر کی جاتی تھی ، ایسا بھی ہوا کہ4سال تک ایک ہی قیمت برقرار رکھی گئی ،اوپن مارکیٹ میں کسان کو زیادہ قیمت کی پیشکش ہورہی ہوتی تھی لیکن محکمہ خوراک اپنے خریداری اہداف کے لیے سرکاری گنڈاسہ اٹھائے مولاجٹ بن کر کسان کی گندم ہائی جیک کر لیتا تھا۔
چند برس قبل اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گندم کی امدادی قیمت خرید میں1700 روپے یکمشت اضافہ کرتے ہوئے 3900 روپے فی من امدادی قیمت خرید مقرر کردی ،اس فیصلے میں ایک جانب صارفین پر آٹے کی قیمت کی صورت میں تقریبا سو فیصد بوجھ بڑھایا تو دوسری جانب سرکاری محکموں کی گندم خریداری کے مالی اخراجات کو بھی بڑھا دیا۔بھلا ہو پاکستان کے سپہ سالار کا جنھوں نے گزشتہ برس نگران حکومت کے ساتھ مل کر جب ملکی معیشت کی بحالی کا بیڑہ اٹھایا تو بہت سے دیگر غلط فیصلوں کے ساتھ اس فیصلہ کو بھی غلط قرار دیا۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ سال ہی گندم کی سرکاری خریدو فروخت کو پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا تھا جس کے بعد سب سے پہلے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بہت مشکل اور غیر مقبول مگر مستقبل کے لیے انتہائی فائدہ مند فیصلہ کیا کہ انھوں نے محکمہ خوراک پنجاب کے پاس موجود گندم کی فلورملز کو فروخت کے لیے قیمت اور اوپن مارکیٹ قیمت میں بڑے فرق کو ختم کرتے ہوئے قیمت فروخت4700 روپے فی من مقرر کی جس نے کوٹہ چوری، کم پسائی، اسمگلنگ کرنے والوں کی کمر توڑ دی ،فروری2024 میں مریم نواز نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو انھوں نے بھی ریاست، وفاق اور عالمی اداروں کے اقدام سے اتفاق کرتے ہوئے محکمہ خوراک پنجاب کی سرکاری گندم خریداری ختم کردی۔
اس وقت کسانوں کی جانب سے بہت سخت احتجاج بھی کیا گیا لیکن حقیقت کسان بھائیوں کو بھی معلوم ہے کہ یکمشت قیمت3900 روپے مقرر کرنے کا فیصلہ معاشی غلطی تھی اس سے وقتی طور پر کسانوں کو تو غیر معمولی فائدہ ہوا مگر گندم سے منسلک دیگر تمام سیکٹر غیر مستحکم ہو گئے تھے۔
آج بھی بعض کوٹہ چور فلور مل مالکان اور اسپیڈ منی کے مزے لوٹنے والے سرکاری اہلکاروں کو یہ امید ہے کہ شائد حکومت رواں برس دوبارہ سے گندم کی سرکاری خریداری شروع کر دے لیکن بادی النظر میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں گندم کے حوالے سے متعدد نئی تجاویز پر سنجیدگی سے کام کر رہی ہیں۔ وفاقی سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی وسیم اجمل چوہدری بہت ہی منجھے ہوئے بیوروکریٹ ہیں، وہ ہمیشہ آوٹ آف دی باکس آئیڈیا کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
چند ہفتے قبل ان کی جانب سے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو ایک آفس میمورنڈم ارسال کیا گیا ہے ، دو صفحات کے اس مراسلے میں حقیقت پسندی کو بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ماضی میں وفاق و صوبائی حکومتیں نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور گندم دستیابی کے لیے ’’پرافٹ ایبل سپورٹ پرائس‘‘ اور سرکاری خریداری اہداف کا تعین کرتی تھیں لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں حکومت پاکستان نے شرط تسلیم کی ہے کہ زرعی اجناس اور مداخل کی مارکیٹ کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کیا جائے گا۔سال2022 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے طے کیا تھا کہ وفاقی سطح پر20 لاکھ ٹن گندم کے اسٹرٹیجک اسٹاکس لازمی رکھے جائیں گے۔
ماضی میں صوبائی حکومتیں بھی مجموعی طور پر50/60 لاکھ ٹن گندم اپنے محکمہ خوراک کے ذریعے خریدتی تھیں۔چونکہ اب حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نئے معاہدے نے گندم مارکیٹ کی ڈی ریگولیشن کے نئے چیلنج کھڑے کر دیے ہیں تو ایسے میں وفاقی حکومت یہ جاننا چاہتی ہے کہ صوبائی حکومتیں کسانوں سے گندم خریدنا چاہتی ہیں یا وہ اوپن مارکیٹ کی حامی ہیں۔
صوبائی حکومتوں کے پاس موجود اس وقت گندم بھی جلد ہی استعمال ہوجائے گی لہذا صوبائی حکومتوں کو فوڈ سیکیورٹی کے لیے اسٹریجیٹک اسٹاکس رکھنے کے لیے وفاق کی جانب سے تجویز کردہ اعدادوشمار کے مطابق نیا پلان بنانا ہوگا۔ وفاقی محکمہ پاسکو بھی جلد ہی تحلیل کیے جانے کا امکان ہے دوسری جانب 29 اکتوبر2024 کو وفاقی کمیٹی برائے زراعت میں صوبوں نے جو اعدادوشمار پیش کیے ہیں اس کے مطابق مستقبل میں پیداوار اور ضروریات میں36 لاکھ ٹن کا بڑا فرق پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
وفاقی حکومت نے صوبوں کو تجویز کیا ہے کہ کسی ناگہانی آفت کی صورت میں فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو وفاق اور صوبائی حکومتوں بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر حکومت کی مشترکہ ملکیت ہو گا۔ یہ ادارہ آبادی کے تناسب سے صوبوں کے لیے فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے گا۔
ماضی میں سرکاری گندم خریدو فروخت کو کرپشن کے لیے جس بے دردی سے استعمال کیا گیا اس کا فائدہ عام آدمی کو نہیں ہوا ہے لہذا اب اگر وفاق اور صوبے روایتی گندم نظام ترک کر کے صرف ملکی فوڈ سیکیورٹی کے لیے اسٹرٹیجک اسٹاکس رکھنے کے لیے کوئی نیا نظام لانے کا سوچ رہے ہیں تو یہ خوش آئند امر ہے ۔