پیپلز پارٹی کا سیاسی فیصلہ

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے کیوں بنی، کس نے بنوائی سب کو پتا ہے


[email protected]

  ایکسپریس رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کیا ہے جو اتحادی جماعت ہونے کے باعث غیر مناسب بھی سمجھا جائے گا اور موجودہ اپوزیشن یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ پیپلز پارٹی اگر واقعی حکومتی پالیسیوں سے ناخوش ہے تو پی پی کو حکومت کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ مطالبہ پی ٹی آئی کے مفاد میں ہو سکتا ہے اور پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مل کر حکومت بھی بنا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف زرداری کی خواہش مشروط طور پر پوری بھی ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو نئی حکومت موجودہ حکومت سے کچھ بہتر بھی ثابت ہو سکے گی اور انتقامی اور بدترین بھی کیونکہ اسیر بانی پی ٹی آئی انتقام کے عادی ہیں۔

 2008 میں جب پیپلز پارٹی نے وفاق میں اپنی زیادہ نشستوں کے باعث مجبوری میں (ن) لیگ سے مل کر حکومت بنائی تھی جس میں پنجاب میں پھر شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تھے تو اس وقت آصف زرداری صدر مملکت تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف سے کیے گئے باہمی معاہدے کے بارے میں کہا تھا کہ سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان پر مکمل عمل کیا جائے، اسی لیے صدر زرداری نے ججوں کی بحالی سے انکار کر دیا تھا جس پر (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر حکومت قائم رکھی تھی۔

مسلم لیگ (ن) ججز بحالی سے صدر آصف زرداری کے انکار پر پی پی حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن میں چلی گئی تھی مگر اس کی اپوزیشن ماضی جیسی نہیں تھی کیونکہ دونوں پارٹیوں میں لندن میں میثاق جمہوریت تھا اور پی پی حکومت نے پہلی بار اپنی مقررہ مدت پوری کی تھی اور پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہے تھے جنھیں ہٹانے میں ناکام رہنے کے بعد صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگا کر (ن) لیگ پر وار ضرور کیا تھا مگر عدالت عالیہ سے (ن) لیگی حکومت بحال ہوگئی تھی اور سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ تھے اور کے پی میں پی پی نے اے این پی کا وزیر اعلیٰ بنایا ہوا تھا۔

2013 تک پنجاب میں پی پی حکومت نہ ہونے کے باوجود پی پی کی وفاقی اور (ن) لیگ کی پنجاب حکومت میں اتنی دوریاں نہیں تھیں جتنی کے پی میں اب تک کی تین پی ٹی آئی حکومتوں اور وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت میں ہیں اور پی پی سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے ساتھ انجوائے کر رہی تھی اور آج بھی سندھ، بلوچستان میں پی پی کی حکومت ہے مگر جس طرح وفاقی حکومت پی پی کی حمایت کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح بلوچستان میں پی پی حکومت مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی اور ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت کے رویے کے خلاف پی پی نے اس پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کیا ہے جو ایک مثبت فیصلہ بھی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے کیوں بنی، کس نے بنوائی سب کو پتا ہے۔ 2018 میں پی ٹی آئی حکومت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے بغیر جس طرح بنوائی گئی تھی، اسی طرح مجبور ہو کر پی پی اور (ن) لیگ نے مل کر حکومت بنائی جس میں ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا عہدہ پی پی کے پاس ہے اور دوسرا بڑا وزیر اعظم کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے اور دس ماہ سے دونوں پارٹیاں مل کر بھی چل رہی ہیں اور دونوں میں اختلافات بھی چل رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں جس پر دونوں پارٹیوں کے رہنما پی پی شکایات دور کرنے کے لیے ملتے بھی ہیں مگر پیپلز پارٹی کو (ن) لیگ نہ جانے کیوں مطمئن نہیں کر پا رہی کہ اب پی پی کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔

ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی سے مذاکرات چل رہے ہیں جن کی کامیابی کی امید دونوں فریقوں کو بھی نہیں ہے جس پر پی پی رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کو ڈیل کا رنگ نہیں دینا چاہیے اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو پی ٹی آئی کی نیت میں فتور نظر آ رہا ہے اور حکومت سے پیپلز پارٹی کی شکایات پر وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت پر ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے مگر پی پی نے حکومت پر کھل کر تنقید کا جو فیصلہ کیا ہے۔

اس سے لگتا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں اہم مسائل پر اتفاق نہیں ہو رہا اور پیپلز پارٹی جو چاہتی ہے حکومت اسے وہ نہیں دے پا رہی جس سے نقصان حکومت اور (ن) لیگ کو ہی ہو سکتا ہے اور دونوں کو حکومت میں برقرار رکھنے والوں کو بھی دونوں پارٹیوں کے رویوں پر تشویش بھی ہو گی کیونکہ حکومت کے لیے پی ٹی آئی کے مطالبات بھی مسئلہ ہیں جس پر صدر اور وزیر اعظم کو مل کر حل نکالنا ہوگا اور وزیر اعظم کو بھی اپنی وزیر اعلیٰ پنجاب جیسی پالیسی بدل کر پی پی اور اتحادیوں کی مشاورت سے اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور پی پی کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں