ویلیوز سے ویوز تک

سوشل میڈیا پر اقدار کا مذاق اڑایا جارہا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ’’ویوز‘‘ حاصل کرسکیں


ویب ڈیسک January 10, 2025

(تحریر: ڈاکٹر مبشرہ صادق)


اقدار کسی بھی معاشرے کو جاننے کا ذریعہ ہیں۔ یہ اقدار یا ویلیوز قومی سطح سے نجی سطح تک ہر معاملات زندگی میں اثر انداز ہوتی ہیں۔

جب ہم کسی سے ملتے ہیں تو اس کے بارے میں ہمارے ذہن میں ایک خاکہ بنتا ہے جس کا تعین اس کی اقدار سے بنتا ہے۔ اگر وہ اچھی عادات کا مالک ہے تو وہ ایک اچھے انسان کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے نہیں تو ایک منفی تاثر کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ یہ اقدار ہی معاشرے کی سطح سے انفرادی سطح تک آپ کی حیثیت کا تعین کرتی ہیں۔

دین اسلام ان تمام بہترین اقدار کا مرکب ہے جو کہ کسی بھی تہذیب یافتہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسلام کامیاب معاشرتی عمل میں ہم سے جن اقدار کا تقاضا کرتا ہے ان میں ہے ’’اعتدال‘‘ یعنی توازن برقرار رکھنا۔ اگر آپ کسی بھی معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں تو یہ بے اعتدالی آپ کی ساری محنت پر پانی پھیر دے گی۔

اعتدال ایک ایسا سنہرا اصول ہے کہ اگر صرف اسی قدر کے ساتھ ہم اپنی تمام توانائیاں جوڑ لیں تو زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور بہترین معاشرتی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر اعتدال کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے۔ نیک لوگوں کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اُڑاتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ صحیح روش اختیار کرتے ہیں‘‘ (سورہ فرقان)۔ فرمان رسولؐ کے مطابق ’’ھلک المتنطعون‘‘ حد سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے۔

پھر اسلامی مزاج میں ’’نرمی اور کشادگی‘‘ کا تاثر بہت واضح ملتا ہے۔ قرآن کریم میں رسولؐ کی نرمی کی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔ سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کےلیے استغفار کریں‘‘ (آل عمران)۔

فرمان رسولؐ ہے ’’بلاشبہ اللہ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ سب کچھ نوازتا ہے جو شدت پر نہیں نوازتا‘‘۔ اسلام ہمیں عائلی معاملات سے لے کر قانونی معاملات تک ہر میدان میں نرمی اور کشادگی کا حکم دیتا ہے، کیونکہ نرمی رحمت ہے اور سختی زحمت اور تکلیف ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے مزین انسان خوشبو کی طرح ہوجاتا ہے۔ اس کا موجود ہونا ایک خوشگوار تبدیلی لاتا ہے جب کہ سخت خو اور ترش رو انسان سے لوگ پناہ مانگتے ہیں۔ فرمان نبوی کے مطابق ’’میری امت کا بدترین انسان وہ ہے جس کی ترش روی سے لوگ اس سے بات کرنے سے ڈریں‘‘۔

’’امانت‘‘ ایک ایسی دینی صفت ہے جس کو اپنانے پر بہت شدت سے اصرار کیا گیا ہے، کیونکہ اس کا تعلق بھی دوسری اقدار کی طرح انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے بہت گہرا ہے۔ نجی تعلقات زندگی سے لے کر اعلیٰ تجارتی تعلقات میں اس کا بہت بنیادی کردار ہے۔ اس کے بغیر ایک کامیاب فرد کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایک خوشحال معاشرے کا۔ انسانوں کے بیچ کا سب سے مضبوط، سب سے معتبر اور سب سے پائیدار کوئی رشتہ اگر ہوسکتا ہے تو وہ امانت ہی کا رشتہ ہے۔ مگر یہ رشتہ اسی وقت صحیح معنوں میں ثمرآور اور کامیاب ہوسکتا ہے جب پہلے یہ رشتہ خالق کائنات کے ساتھ استوار ہو جائے۔

فرمان خدا ہے ’’اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو‘‘ ( الأنفال)
رسولؐ صادق اور امین کے القاب سے جانے جاتے تھے اور پھر معاشرتی عمل میں اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ایک کامیاب خاندان ہو، یا ایک ادارہ اور تنظیم ہو یا پھر ایک حکومت ہو، ان سب کی کامیابی اس پر منحصر ہے کہ ان کے درمیان مختلف سطحوں پر کس قدر امانت کی صفت موجود ہے۔
ان کےعلاوہ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا احترام کرنا، عدل و انصاف قائم کرنا، اور دیگر صفات ہماری ایسی اسلامی اقدار ہیں جن کو ہم نے ترقی کے نام پر کب کا پس پشت ڈال دیا ہے اور معذرت کے ساتھ تمام اسلامی سماج ان اقدار سے خالی ہیں اور اکثر مغربی ممالک ان اقدار سے مزین ہوکر تہذیب کے سفر میں ہم سے بہت آگے ہوگئے ہیں۔

دین اسلام تو ہم سے ان سب اقدار کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن آج ہم شرم و حیا سمیت ان تمام اقدار کو ختم کرکے ’’ویوز‘‘ کی دوڑ میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ آج ویلیوز سے ویوز تک کا سفر جتنا جلدی ہم نے طے کیا ہے اس کی رفتار کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھیر دیا، رشتوں کی حرمتوں کو پامال کردیا ہے۔ والدین کا ایک اونچا مقام جو شریعت نے مقرر کیا تھا وہ کہیں کھو گیا، بہن بھائیوں کی درمیان رشتوں کی حرمتوں کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ نکاح سے استوار ہونے والے رشتوں کو مذاق بنا دیا ہے۔ شوہر اور بیوی نازیبا حرکات کو فلم بند کرکے وائرل کر رہے ہیں۔ اقدار کا مذاق اڑایا جارہا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ’’ویوز‘‘ حاصل کرسکیں۔

اسلام تو دین عمل تھا، دین رحمت، جس کو ہم مسلمانوں نے آپس میں سوائے زحمت بنانے کے اور کچھ نہیں کیا۔ کہیں بھی جھگڑا پیدا کرنا ہے تو وہاں اسے مذہبی رنگ دے کر خانہ جنگیاں کروائیں گے۔ اسلام تو امن کا دین تھا جس کو ہم نے دہشت گردی سے تعبیر کیا جاہل علما کو سونپ کر، جنہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر اس کی تعلیمات سے ایسا مذاق کیا ہے کہ اسے کچھ کا کچھ بنا کر پیش کردیا ہے۔

سوشل میڈیا پر باقاعدہ اقدار کی نفی پر، رشتوں کی نفی پر ایک مہم چل رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسری وائرل ویڈیوز یہی پیغام لیے ہوئے ہیں کہ جتنا آپ ان ویلیوز سے ہٹیں گے اتنا ہی کامیاب قرار پائیں گے۔ اگر اس میڈیا کو ’’ویوز‘‘ کے بجائے ’’ویلیوز‘‘ کی طرف لے آئیں تو یقین کریں وہ دن دور نہیں جب آپ اسلام کی صحیح تصویر بہترین طریقہ سے دنیا کو پیش کرسکیں گے۔

اس نئے سال میں کچھ تو ایسا کریں جس میں آپ کی تمام تر توانائیاں ’’ویلیوز سے ویوز‘‘ کے بجائے ’’ویو زسے ویلیوز‘‘ کی طرف مڑ جائیں۔ یہ رجحان دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کو سرخرو کردے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں