ڈالر اور مہنگائی پر قابو، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی یقینا حکومت کا کریڈٹ ہے تاہم معاشی استحکام کیلیے سیاسی استحکام ضروری ہے، اس کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔
ملک میں آج بھی میثاق جمہوریت پر کام ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں میثاق معیشت پر راضی نہیں، ملک کو درست سمت دینے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلیے میثاق معیشت ناگزیر ہے، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھنا ہوگا۔
اڑان پاکستان اچھا نعرہ اور منصوبہ ہے ، اس کے اہداف بڑے ہیں، کیسے پورے ہوں گے اس کا کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا، کاروبار کرنے میں غیر ضروری رکاوٹوں اور مداخلت کو ختم کردیا جائے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ تین سال میں ملک اڑان پاکستان جیسے منصوبوں میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت یہ اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو بیوروکریسی کے بجائے بزنس کمیونٹی، اکیڈیما اور معاشی ماہرین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہوگا، صرف شعبہ زراعت پر توجہ دینے سے اڑان پاکستان کے معاشی اہداف حاصل ہوسکتے ہیں۔
65 فیصد سے زائد نوجوان آبادی کو آئی ٹی اور انٹرپرینیورشپ کی تربیت دینا ہوگی، انہیں جدید سکلز سکھا کر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار ماہرین معاشیات، اکیڈیمیا اور انڈسٹری کے نمائندوں نے ’’ملکی معاشی صورتحال اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔
فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔ ڈین فیکلٹی آف کامرس، جامعہ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان نے کہاکہ اڑان پاکستان اچھا برانڈ نیم ہے، اس میں بڑے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، پاکستان کی آزادی کے100 برس مکمل ہونے پر 3ٹریلین کی معیشت بنانے کا ہدف ہے، سوال یہ ہے کہ یہ سب حاصل کیسے ہوگا؟کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا، ایز آف ڈوئنگ بزنس کیلیے کچھ نہیں کیا گیا،اگر واقعی ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو حکومت کو کم سے کم حکومت بننا ہوگا، کاروبار پر بے جا دباؤ ختم کرنا اور بزنس کنٹرول سے نکلنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ مہنگائی میں کمی نہیں ہوئی لیکن وقت ڈالر اور مہنگائی میں اضافہ رک گیا ہے، اسٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے جو معاشی حوالے سے مثبت ہے، اس کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشی استحکام اور اڑان پاکستان جیسے منصوبوں کی کامیابی کیلیے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی، اس میں تمام سیاسی جماعتوں، بزنس کمیونٹی، اکیڈیمیا و دیگر طبقات کو شامل کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ سب محب وطن ہیں، ملکی بقاء کی خاطر تینوں بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھیں اور اتفاق رائے سے ملک کو مسائل سے نکالنے کا لائحہ عمل تیار کریں۔ ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین محمد ندیم قریشی نے کہاکہ ملک میں میثاق جمہوریت پر پہلے بھی کام ہوا، اب بھی ہو رہا ہے لیکن آج تک میثاق معیشت پر کام نہیں ہوا، ہم نے بار ہا کہا، ایف پی سی سی آئی میں سیاسی جماعتوں کو اس پر اکٹھا کرنے کی کوشش بھی کی مگر میثاق معیشت پر پیشرفت نہ ہوسکی، جب تک ملک میں میثاق معیشت نہیں ہوگا تب تک نہ تو معاشی استحکام آسکتا ہے اور نہ ہی اڑان پاکستان جیسے منصوبے خاطر خواہ نتائج دے سکتے ہیں۔
ا نہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی اور بزنس چیمبرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا جس کے باعث موثر پالیسی نہیں بنتی۔ حکومت ترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا ہوگی۔ا نہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجہ اس کے ماڈل میں تبدیلی ہے، بنکوں نے ’میوچل فنڈز‘ بنا دیے ہیں،زراعت پر ہماری توجہ نہیں ہے، اگر کنولا اور سرسوں پر توجہ دی جائے تو اس سے زیرو امپورٹ کا ہدف پورا ہوسکتا ہے، صرف زراعت سے ہی اڑان پاکستان کے معاشی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ ودہولڈنگ سے ملکی معیشت چلائی جا رہی ہے، رٹیل پر ٹیکس نہیں مگر تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے، بڑے ٹیکس چوروں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا جا تا، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کو مفت گھر، گاڑیاںو دیگر مراعات دی جارہی ہیں، معیشت سمگلنگ، رشوت اور ٹیکس چوری پر چل رہی ہے، پیسہ باہر جا رہا ہے جس سے معیشت مستحکم نہیں ہورہی۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ویژن پاکستان کے تحت اڑان پاکستان کی صورت میں ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جس میں معیشت ، سوشل سیکٹر، انفارمیشن، ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کو ٹھیک کرنا ہے، امید ہے یہ اہداف پورے کیے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے ہم پر سختی ہے، بجلی کے نرخ کم نہیں کر پا رہے۔انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور چین نے قرضے رول اوور کیے ہیں، سعودی عرب نے 3 ارب ہمارے بنکوں میں رکھے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی ڈیڑھ بلین مل چکا ہے۔