چند اہم نظریات اور ان کا مفہوم

کسی خطے میں زمین پر کوئی قانون نہ ہو قانونی ادارے نہ ہوں تو اسے انارکی کا نام دیا جاتا ہے


جبار قریشی January 12, 2025

نظریہ کے لفظی معنی ’’ نظر سے دیکھنے‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں اس کا مفہوم مستحکم سوچ انداز فکر اور تصور حیات کے معنی میں لیے جاتے ہیں۔ نظریات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی ان کا انسانی تہذیب کی تشکیل میں اہم کردار رہا ہے۔ نظریات کی تبدیلی نہ صرف انداز فکر کو بدل دیتی ہے بلکہ انسان کا طرز عمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لیے نظریات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مطالعہ بالخصوص فلسفہ کے طلبا کے لیے بہت ضروری ہے۔

آئیے! اس کالم میں چند اہم نظریات کے مفہوم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تصورات: اس نظریہ کی رو سے کائنات اور اس کی اشیا کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ حقیقت کا عکس ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی مکان بناتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے مکان کا تصور آتا ہے جب مکان بنتا ہے تو مکان درحقیقت تصورات کا عکس ہے۔ اس نظریہ میں روح اور خیال اور سطور کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

مادیت: یہ نظریہ ’’ نظریہ تصور‘‘ کی نفی کرتا ہے، اس کے نزدیک کائنات میں سوائے مادے کے دنیا میں کسی چیزکا وجود نہیں، ہم تصورات کو بھی اس وقت سمجھتے سکتے ہیں جب ہم مادے کی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس نظریہ میں مادیت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

ثانویت: اس نظریہ کی رو سے کائنات میں مادہ اور روح دونوں کارفرما ہیں، دونوں کے باہم ملاپ سے نظام کائنات میں ایک خاص ترتیب عطا ہوئی ہے یہ نظریہ Dualism کہلاتا ہے۔

فطرت پرستی: یہ نظریہ رکھنا کہ اشیا پیدا ہوتی ہیں، ارتقا سے گزرتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں یہ علت اور معلول cause & effect کے تحت بغیر کسی کی مداخلت کے طے شدہ قوانین کے تحت ہو رہا ہے۔ اس نظریہ کو فطرت پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔

وجودیت: وجود کے معنی عام طور پر جسم کے سمجھے جاتے ہیں، یہاں اس کے معنی فرد کے ہیں، اس نظریہ میں اجتماعی زندگی کے مقابلے میں فرد کی انفرادی زندگی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یعنی اس نظریے میں روح، جوہر یا نفس کو نہیں بلکہ وجود کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔جدلیاتی مادیت: اس نظریہ کی رو سے تمام سیاسی اور تاریخی واقعات سماجی قوتوں کے تصادم کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ سب معاشی عوامل کے تحت وجود میں آتے ہیں۔

مثالیت پسندی: زندگی جس طرح ہے اسے اس طرح پیش کرنے کے بجائے اس طرح پیش کرنا جیسے کہ اسے ہونا چاہیے یہ نظریہ اصطلاح میں مثالیت پسندی کہلاتا ہے انگریزی میں اسے آئیڈیل ازم کہتے ہیں۔

حقیقت پسندی: دنیا تضاد، مفادات اور تنازعات پر مبنی ہے، اس لیے اس پر اخلاقی اصولوں کو کلی طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا اس لیے حقیقت پسندی کا نظریہ زندگی جیسی ہے، اسے ایسا ہی پیش کرتا ہے۔ اسے انگریزی میں Realism کہتے ہیں۔

قدامت پسندی: یہ نظریہ روایتی رسوم و رواج کو برقرار رکھنے اور ان کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

بنیاد پرستی: کسی بھی بنیاد پر یا اصل پر قائم رہنا یا اس کی کوشش کرنا بنیاد پرستی کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح کسی بھی مذہب کے اندر اس رویہ کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے جس کے تحت مذہب کے پیروکار مذہب کے بنیادی اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند ہونا چاہتے ہوں۔

جدیدیت: یہ ایک شعوری میلان ہے یہ اپنے عصر حاضر کے تقاضوں سے باخبر ہو کر جدید اور ناگزیر علوم اور اشیا کو قبول کرنے کا نام ہے۔ یہ نظریہ روایتی سوچ کو جدید نظریات میں تبدیل کرنے پر زور دیتا ہے۔

آمریت: جب کوئی آمر طاقت کے زور پر قوانین کو نظرانداز کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے حکومت کرتا ہے، اسی طرز حکومت کو آمریت کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت کی وہ قسم جس میں ایک مخصوص طبقہ کے چند افراد کو بعض امتیازی خصوصیت کے سبب حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ٹیکنوکریٹ حکومت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر اشرافیہ کا تعلق مذہبی طبقے سے ہو تو ایسی حکومت کو تھیوروکریسی کہتے ہیں۔

سیکولرازم: جب ریاست مذہب کی براہ راست مداخلت قبول نہیں کرتی اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ریاست کو فرد کے ذاتی معاملات جو دوسروں کے لیے نقصان دہ نہیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ایسی ریاست کو سیکولر ریاست کہا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے لادینی ریاست کا نام دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ یہ ایک انسان دوست نظریہ ہے جو ریاست کے تمام مذاہب کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔

انارکسزم: کسی خطے میں زمین پر کوئی قانون نہ ہو قانونی ادارے نہ ہوں تو اسے انارکی کا نام دیا جاتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں کسی ریاست میں بغیر حکمرانی کے معاشرتی نظریہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

فاشزم: انتہا پسندانہ نظریات کے نفاذ اور نسلی برتری کے حصول کے لیے جبر و تشدد کا استعمال کرنا فاشزم کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سخت گیر نظام ہے جس میں کسی فرد کو اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اسے اردو میں فسطائیت کا نام دیا جاتا ہے۔

لبرل ازم: یہ فرد کی انفرادی اور فطری آزادی کا نظریہ ہے جو ریاست کے ہر فرد کو اس کے انسانی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اس نظریے میں ریاست مذہب کے معاملے میں ایک حد تک لچک اپناتی ہے اور میانہ روی کا رویہ اختیار کرتی ہے اسے اردو میں آزاد خیالی نظریہ کا نام دیا جاتا ہے۔

جمہوریت: ایسا نظریہ جس کے تحت ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت کا حق حاصل ہوتا ہے۔

سرمایہ داری: یہ معاشی نظریہ ہے جو منافع کے لیے وسائل اور پیداوار پر نجی شعبے کے کنٹرول کی بنیاد پر قائم ہے اسے فری اکانومی مارکیٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

کمیونزم: یہ بھی معاشی نظریہ ہے جس کے تحت املاک اور معاشی وسائل انفرادی شہری کے بجائے ریاست کی ملکیت اور کنٹرول میں ہوتے ہیں اسے اردو میں اشتمالیت کا نام دیا جاتا ہے۔

سوشلزم: اس نظریہ نظام کے تحت عام شہری بھی معاشی وسائل افراد کے بجائے حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں اس نظام کو اشتراکیت کا نام دیا جاتا ہے۔

رومانیت: اس نظریہ کے تحت فن میں جذبات اور محسوسات کو اولین حیثیت حاصل ہے اس نظریہ کے ماننے والے تخیل کو منطق پر ترجیح دیتے ہیں۔

علم کلام: یہ بھی ایک نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے تحت پہلے کوئی عقیدہ یا نتیجہ بنا لیا جاتا ہے پھر اس کی صداقت کے حق میں دلائل تلاش یا تیار کیے جاتے ہیں۔ اسے علم کلام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ نظری تضادات کے حل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں