درپردہ

 عہد حاضر کی اس رکیک اخلاقی برائی سے کیا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟


شہلا اعجاز January 12, 2025

2009 میں ایک تحقیق کی گئی جو کیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی تھی نظریہ بڑا دلچسپ تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ واقعی بری چیز ہے؟‘‘ محققین کے مطابق یہ آپ کے لیے اچھی ہو، ایسا ممکن ہے جب اس کا کوئی مقصد ہو یا جب گالی دیے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو اس کا دینا مغلظات کا بکنا ہی ٹھیک ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق تکلیف کے وقت ہماری زبان سے بے اختیار نکلنے والے مغلظات دراصل ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق دماغ کے ایک حصے امیگڈلا کو تحریک دے کر ’’ مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘ کو دباتی ہیں اور دماغی مادے ایڈرینالین کو بڑھاتی ہیں جو فطری طور پر درد سے نجات دلاتا ہے۔ایک اور مزے دار سطر پر غور فرمایے ’’ گالی دینا ہر شخص کی ضرورت ہے، سائنس نے ثابت کردیا۔‘‘

سائنسی جریدے لنگوا میں شایع ہونے والی تحقیق کا موضوع تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ ہر ثقافت میں ایک ہی طرح کا اثر رکھتی ہے؟‘‘ اس تحقیق کے مطابق ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر برن نے گالم گلوچ کے حوالے سے ایک اور تحقیقی نقطہ اجاگرکیا۔ ان کے مشاہدے کے مطابق اگر فالج کی وجہ سے کسی کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو جائے اور وہ بولنے سے قاصر ہو جائے تب بھی وہ گالی دے سکتا ہے۔

نفسیات کے استاد ڈاکٹر رچرڈ سیٹو نے اس موضوع پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درد کی کیفیت میں گالی دینے سے کیسے آرام ملتا ہے؟‘‘

 گالی دینے سے آرام ملتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے سوشل میڈیا نے اس عمل کو اس قدر مزین کر کے دکھایا ہے کہ لوگ بڑے مزے سے روانی میں بولے چلے جاتے ہیں، بڑی سے بڑی واہیات گالی انتہائی آرام سے بیچ محفل میں بلکہ مائیک پرکیمرے کے سامنے۔

جی، ہاں ! کیمرے کے سامنے وہ بھی خواتین اور جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے بیچ۔ ایسا ہم نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ پڑوسی ملک کے فنون لطیفہ کے کسی مقابلے کے پروگرام میں اینکر موصوف اپنے معزز مہمانان اور مقابلے کے شرکا کی گفتگو کو انجوائے کر رہے تھے اور معزز مہمان جن کی اس قدر بے ہودہ گالی سن کر تو ہوش ہی اڑ گئے، ان کے لیے معزز استعمال کرنا تو بنتا ہی نہیں، مسکراتے چہرے سے روانی سے بولتے چلے گئے اور میزبان جو خاصی مشہورکامیڈین ہیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر نام دار بھی معروف اینکر ہیں مہمان کی واہیات گالی پر ایسے ہی رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ان کے منہ سے تو پھول جھڑ رہے ہوں۔ یہی نہیں ہمارے اپنے نوجوان بھی جو یوٹیوب چینلزکھول کر بیٹھے ہیں، روانی سے بڑی بڑی گالیوں کو بکنا غالباً ٹرینڈ سمجھتے ہیں، ایک ایسا ٹرینڈ جو ہمارے مذہب اور ادب کے منافی ہے۔

 سائنس دانوں کا گالم گلوچ پر تحقیق کرنا تو ظاہر ہے کہ ریسرچ ضروری ہے، پر اس کے ایسے مثبت اثرات سمجھ سے باہر ہیں۔ سائنس نے کیا ثابت کیا اورکیا نہیں، یہ کیوں ضروری ہے کہ انسانی اخلاق کے منافی اطوارکو اچھے سنہرے لباس میں لپیٹ کر عوام الناس کو گمراہ کیا جائے،کیا یہ بھی کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے؟

 ہائی بلڈ پریشرکی علامات میں غصے کا بلند ہونا بھی ہے،کیا انسان کی حسیات منفی رجحان اور تاثرات کو الٹ لے رہے ہیں یا غلط سلط باتوں سے شیطانی حرکتوں کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر اسی زمرے میں ایک مثال ہے جو ایک نارمل انسان کوگالیاں بکنے گویا جذبات بھڑکانے اور دباؤ بڑھانے سے بھی پیدا ہو سکتا ہے، پھر سکون کے لیے لغویات کا استعمال تو جیسے منشیات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

ہمارے ہاں ایک رواج بن گیا ہے عام گفتگو اور بول چال میں بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یا مزاج کے لیے گالی کا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص کر ادھیڑ عمر کے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل ہیں۔ آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہوں گے جو ہر نئی بات کی ابتدا ایک موٹی سی فحش گالی سے کر کے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ لوگ گالم گلوچ والے لوگوں کو اگر برا سمجھتے ہیں تو ان کی بات پر توجہ بھی دیتے ہیں،گویا لغویات اپیل کرتی ہیں۔ یہ ایک عام رویہ ہے لیکن مذہبی اور اخلاقی طور پر اس رویے کی کوئی گنجائش نہیں۔

 عہد حاضر کی اس رکیک اخلاقی برائی سے کیا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟ سائنس دان اسے انسانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھیں یا ضرورت، لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسے اگر یوں کہہ لیا جائے کہ انسانی فطرت کو شیطانی معاشرے کی جانب دھکیلنے کا ایک ایسا گُر جو بظاہر پرسکون کرنے والا تو ہے پر درحقیقت انسانی جبلتوں کے منافی ہے، انسانی فطرت میں اس کی کہیں جگہ نہیں ہے، لیکن اب یہ کھل کر ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پر چھا رہا ہے۔ جو انسانی دماغ کو ایک شیطانی معاشرے کا حصہ بنانے کی عادت کی جانب راغب کر رہا ہے۔

 اسلام میں بدگوئی اور طعنہ زنی کو بہت برا سمجھا گیا ہے۔ بدگوئی کا اہم پہلوگالی ہے۔ اسلام میں گالی دینے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر47)

اسلام میں ہر اس بات سے منع یا ناپسند فرمایا ہے جس کے کرنے سے مسلمان پریشان ہو، بیمار ہو، جو اس کے لیے اور معاشرے کے لیے برا ہو۔ لہٰذا یہ تو طے ہے کہ جن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گالی دینا ہر انسان کی ضرورت ہے بالکل غلط ہے کیونکہ انسان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھنے، متوازن رکھنے اور بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے وہ تمام امور جنھیں سائنسی تحقیق شور مچا مچا کر اچھا کہے یا دعوے کرے درست نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کی صورت میں ناموافق عوامل عود کر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں معاشرے میں سیاسی تخت ہو یا گھریلو الجھنیں، عوامی مسائل ہوں یا کچھ اور جن پر حرام کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے وہ انسان کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس سے ہمیشہ مسائل ہی جنم لیتے ہیں۔

ہمارے مشرقی ماحول میں ابھی بھی گھروں میں اس طرح کی آبیاری سے گریز کیا جاتا ہے جہاں بد اخلاقی، بدگوئی اور لچر پن کو اولیت دی جائے یا درگزر نہیں کیا جاتا، پھر بھی آئے دن اخبارات و رسائل میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر بیانات اور بدگوئی کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں جو مسلمان معاشرے کے لیے دیمک ہے۔ ہم بدگوئی اورگالم گلوچ سے بچاؤ اور اپنے معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں، اگر نہیں تو ایک بار رب العزت کے احکامات کو توجہ سے پڑھیں جو دنیائے عالم کے لیے ایک مکمل کتاب ہے جو ہمیں صحت مند رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں