معصوم بچہ عباد اور کھلے گٹر

بچے کی ہلاکت میں شادی ہال کی انتظامیہ پوری پوری قصور وار ہے


نسیم انجم January 12, 2025

بے حد اندوہناک خبر ہے کہ معصوم بچہ شادی ہال کے سامنے کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہو گیا، ریسکیو، رضاکار اسے بروقت نالے سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اسی دکھ، غم اور ناکام کوشش کے درمیان بچے کی لاش نالے سے بہتی ہوئی ندی میں پہنچ گئی۔

کھلے نالوں اور گٹروں پر ڈھکن لگانے کی کس کی ذمے داری ہے؟ حکومت تو شہریوں کے حقوق اور تحفظ سے دستبردار ہو چکی ہے۔ بے شمار بچے ایسے ہی سانحات کا آئے دن شکار ہوتے ہیں گھروں میں قیامت اتر آتی ہے والدین اپنے بچوں کی اچانک موت کا سن کر جیتے جی مر جاتے ہیں، دل میں ایک برچھی سی لگتی ہے جو قلب کو شق کر دیتی ہے، زخمی دل اور تڑپتی روح کا کوئی مداوا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں، صوبہ سندھ اور اس پر حکومت کرنیوالوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت جعلی ووٹوں پر وجود میں آئی ہے اور اب اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے حق دار کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے دلخراش واقعات کا رونما ہونا آج کی بات نہیں ہے بلکہ کئی عشروں سے حکمران خواب غفلت میں گم ہیں۔

انھیں عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشرتی ڈھانچہ بے حد کمزور اور بوسیدہ ہو چکا ہے، اپنے مفاد کے سوا کسی کو کچھ نظر نہیں آتا ہے، بچے کی ہلاکت میں شادی ہال کی انتظامیہ پوری پوری قصور وار ہے کہ ان منتظمین کو نہیں معلوم تھا، تقریبات کے مواقعوں پر بچے باہر نکل جاتے ہیں، خاص طور پر گولا گنڈا، آئس کریم یا چپس کے پیکٹ خریدنے کے لیے، ان حالات میں حادثہ ہو سکتا ہے اور اگر بجلی چلی جائے تو اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔

شادی ہال کے اطراف کے علاقے کو صاف ستھرا اور گٹر کے ڈھکنوں سے بند کرنا ان لوگوں کا فرض ہے۔ اسی طرح بے شمار دکاندار اپنی دکان کے سامنے کے حصے کو کوڑا کرکٹ سے پاک نہیں کرتے نہ ہی اونچے نیچے راستے کو ہموار کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ بزرگ حضرات کو دکان سے خریداری کرنے میں بے حد مشکل پیش آتی ہے اور گندگی ہونے کی وجہ سے وبائی امراض جنم لیتے ہیں علاقے اور محلے بیماریوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔

معاشی پریشانیاں لوگوں کو جینے نہیں دیتیں۔ اسی وجہ سے لوگ کسی نہ کسی طرح باہر کے ملکوں میں روزگار کے حصول کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ عباد کے والد صاحب بھی دبئی میں فکر معاش کے حل کے لیے مقیم تھے جن بچوں کے لیے پرائے دیس رہ کر وہ مشقت کر رہے تھے وہی بچے اگر کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائیں اور پھر ایک بچہ لقمہ اجل بن جائے تو پھر ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، یہ بات وزرا، کمشنر، گورنر اور مشیروں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے؟

آخر بلدیہ کا ادارہ کیوں وجود میں آیا ہے، یہ سب اہم عہدے دار تنخواہیں زیادہ سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور کام صفر۔ نہ ہونے کے برابر۔ کمشنر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر روز پابندی سے بازاروں، شاہراہوں اور اہم دفاتر کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کراچی کے شہری کس قدر بے بسی اور کسمپرسی کا شکار ہیں، ان کے بچے اغوا کر لیے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو بغیر کسی قصور کے گولی مار دی جاتی ہے جب کہ قاتل اور لٹیرے محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں، گھروں میں ڈاکے ڈال رہے ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ 

گویا سرکار سے اجازت نامہ لے کر آئے ہیں کہ ان کے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، اگر کوئی جیالا ڈکیتی و چوری کے درمیان مزاحمت کرے تو ڈاکو کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے سیدھی گولی چلا سکتا ہے، اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے تخریب کار پکڑا نہیں جاتا ہے۔اس موقع پر مجھے ایک افسانہ یاد آگیا ہے اس کا نام ہی ’’مین ہول‘‘ ہے۔ جو بلدیہ اور حکومتی رویوں کی شاندار عکاسی کرتا ہے۔ اسی کہانی سے چند اقتباسات۔

’’چاچا خیرالدین نے نرم نرم گھاس پر اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں اور پھر انگڑائی لیتے ہوئے اپنے لاغر جسم کو گھاس کی گود پر ڈال دیا، وہ تینوں چاچا کو دیکھ کر مسکرانے لگے، بولے چاچا! لگتا ہے آج تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ’’طبیعت کا کیا پوچھتے ہو، یہ تو بارہ سال سے خراب ہے، روز بہ روز صحت گر رہی ہے، لیکن دیکھ لو پھر بھی جئے جا رہا ہوں، سینی ٹوریم میں داخل ہونے والے کی طبیعت کیسے ٹھیک رہ سکتی ہے؟‘‘

’’چاچا! انسان اپنی مرضی سے جیتا مرتا نہیں ہے بلکہ قدرت کی طرف سے جینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ان تینوں میں سے ایک بولا جسے ادھر آئے ہوئے تین ماہ گزر گئے تھے، اس کی عمر چالیس پینتالیس کے لگ بھگ ہوگی اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ جب کبھی اس کے جسم پر گوشت ہوگا تو یہ گٹھے ہوئے جسم کا آدمی ہوگا لیکن وقت نے دوسری چیزوں کے ساتھ اس سے اس کی ہڈیوں کا گوشت بھی چھین لیا ہے۔

چاچا ! یاد ہے پچھلی جمعرات کو اسی جگہ تُو نے ہماری زندگی کی کہانیاں سنی تھیں، لیکن آج چاچا! تیری باری ہے۔ لمبے اور دبلے پتلے نوجوان نے جس کی عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہ تھی فرمائش کی۔ دوسروں نے بھی نوجوان کی تائید کی۔چاچا کہانی سنانے کے موڈ میں آگیا تھا۔

کچھ سوچتا ہوا بولا، میری کہانی نئی بھی ہے اور پرانی بھی۔ آپ بیتی بھی ہے، جگ بیتی بھی، اپنی بھی ہے اور پرائی بھی ۔ مجھے بلدیہ کے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں، پچھلے پچیس سال سے میں نے انتخابات میں کھڑے ہونے والوں کو ووٹ نہیں دیا اور نہ دوں گا ’’نہ‘‘ کہتے ہوئے چاچا نے مکہ بنا کر گھاس پر مارا، لیکن چاچا! تم تو اپنی کہانی سنا رہے تھے، یہ بلدیہ کا ادارہ کہاں سے آگیا؟

پستہ قد والے نے ٹوکا۔ میری کہانی کے مرکزی کردار بلدیہ کے ہی افسران اور ادارہ ہے، اگر میں اپنی کہانی سے بلدیہ کو نکال دوں تو کہانی نامکمل اور تشنہ رہے گی۔ ٹھیک ہے چاچا! تم کہانی کو آگے بڑھاؤ۔

دبلے پتلے شخص نے چاچا کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سب کے سب مفت کی کھاتے ہیں، اسکول اور دوا خانوں سے عملہ اور دوائیں غائب اور مین ہول؟ چاچا خیرو نے لمبا سانس لیا، ہماری جب شادی ہوئی تو اماں بہت خوش تھیں، خوشی کی وجہ رضیہ کا حسن تھا، موتیے جیسی رنگت، سیاہ گھٹاؤں جیسے بال، وہ دن بھی کتنے اچھے تھے۔ چاچا سوچوں کی وادیوں میں اتر گیا۔ چاچا پھر بہک گیا ان میں سے ایک نے کہا۔

نہیں بہکا، چاچا کو غصہ آگیا تھا، ساتھیوں کی سرگوشی اس نے سن لی تھی۔ سوری چاچا! آپ آگے بڑھیں۔ کئی سال ہم اولاد سے محروم رہے اور اماں نے اسے بانجھ قرار دے دیا، اب ہر روز ساس بہو میں جھگڑا ہوتا، میں اور رضیہ اماں کو سمجھاتے اولاد کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اللہ چاہے گا تو بہت جلد ہم بامراد ہوں گے، پھر ایسا ہی ہوا، ہمارے گھر کو رحمت نے شاد آباد کر دیا، بچی بہت خوبصورت تھی، وقت گزرتے پتا نہیں چلا، وہ جب چار سال کی ہوئی تو ہم نے اسے اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔

پہلا ہی دن تھا جب رضیہ نے نہلا دھلا کر اسے یونیفارم پہنایا، نیا بستہ اس کے کاندھے پر لٹکایا، اسی دوران میرے سر میں درد اٹھا، میں نے رضیہ سے کہا ایک گولی دے دو اور ایک کپ چائے۔ رضیہ باورچی خانے کی سمت ہوئی، بچی گلے میں بستہ ڈالے باہر نکل گئی۔’’بلدیہ کے غیر ذمے داران افسران اور کھلے مین ہول ‘‘ چاچا کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے گہرے کرب سے گزر رہا ہو۔

چاچا! مین ہول سے باہر نکل آؤ۔ دبلے پتلے نوجوان نے آواز لگائی، مین ہول سے تو میں ساری زندگی باہر نہیں آ سکتا۔ چاچا نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ سرخ اور آنکھوں میں نمی تیر گئی تھی، پھر سنبھلا اور دوبارہ گویا ہوا۔جانتے ہو کھلے مین ہول میں میری اکلوتی بچی جو ہماری خوشیوں، تمناؤں کی محور اور جینے کی امید تھی، وہ گر گئی تھی۔ میں نے سب سے کہا کہ میری بچی کو تلاش کرو، جلدی نکالو، وہ زندہ ہوگی، لیکن کسی نے میری نہیں سنی۔ کتاب ’’آج کا انسان سے ماخوذ‘‘۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت کل اور آج بھی تنزلی کی کھائی میں دھنسی ہوئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں