یہ 29 مئی، 1953 کا دن تھا جب نیوزی لینڈ کے کوہ پیما اور مخیر شخصیت، سر ایڈمنڈ ہلیری (Sir Edmond Hillary) نے اپنا اگلا قدم بڑھایا تو اچانک اُن کا جسم آگے کی جانب جھک گیا۔ یہ کیا ہوا؟ وہ حیران ہو گئے۔ اگلے ہی لمحے احساس ہوا کہ وہ کوہ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے خود کو سنبھالا، سیدھا کیا، چوٹی کو سرکرنے کی رُسومات انجام دیں اور کامیابی کے ثبوت اکٹھا کیے تاکہ تاریخ میں اَمر ہو جائیں۔
ایڈمنڈ ہلیری کا مددگار نیپالی قلی ٹینزنگ نورگے (Tenzing Norgay)، چند فٹ پیچھے تھا، اگر وہ تھوڑا سا اور آگے ہوتا تو شاید ایڈمنڈ کی ٹانگ کھینچ کر نیچے پھینک دیتا اورکو ہ ایورسٹ سر کرنے والا پہلا انسان بن جاتا اور یہ اعزاز نیپال کے حصے میں آجاتا۔ تاہم، نورگے نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اس کے پاس ایسا موقع تھا۔
اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ’ ہرکمال کے بعد زوال ہے‘ دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ کسی بھی کمال کے حصول کے دوران آپ کو ایسے افراد کا ساتھ حاصل رہنا چاہیے جو آپ کے مقصد کے حصول کے دوران آپ کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے پُرخلوص انداز میں آپ کا ساتھ دیں،ورنہ صورت حال مختلف بھی ہو سکتی ہے۔
1992 کے کرکٹ عالمی کپ کے فاتح، لاہور میں سرطان کے حوالے سے یادگاری وقف کو چلانے والے اور اپنی محض اِن دو کامیابیوں کے بل بوتے پر اقتدار کے کوہ ایورسٹ کو سر کرنے کی خواہش رکھنے والے کرکٹر کا قصہ قدرے مختلف ہے۔ یہ کرکٹر بھول گیا تھا کہ ٹیم میں کھلاڑیوں کا انتخاب، خیراتی ٹرسٹ کو چلانا اور پاکستانی سیاست، تینوں اقسام کے کھیلوں کا نہ صرف فارمیٹ مختلف ہے بلکہ یہ‘‘
different ball’s games‘‘ ہیں۔
کرکٹ میں میچ جتانے والے بولر کی ناراضی مول لی نہیں جا سکتی تھی کہ کرکٹ بھی ایک کاروباری سرگرمی ہے اور ہر کاروبار کا مطمع نظر منافع کمانا ہوتا ہے اورکاروبار میں ایسی کوئی غلطی کی نہیں جا سکتی جو بڑے مالی نقصان کا سبب بنے۔
وقف کرکٹر کی اطاعت کرنے والا ادارہ تھا اور ہے۔ سب کو معلوم تھا کہ خان صاحب کی ناراضی مول لینے کا مطلب ملازمت یا وقف سے برخاستی ہے، لہٰذا، وہ خان صاحب کی مرضی اور حکم کو سر آنکھوں پر رکھتے تھے اور یہی وقف کی کامیابی کا راز تھا۔ اس کے برخلاف سیاست مال کے بدلے مال کی بنیاد پر کام کرتی ہے یعنی ’’ کچھ دو گے، تو کچھ لے سکو گے‘‘ اس کا خیرات سے کوئی لینا دینا ہوتا نہیں ہے۔
کرکٹر نے جب سیاست کے ایورسٹ پر چڑھنے کے لیے کاروباری قلیوں کی خدمات حاصل کیں تو یقیناً انھیں اُن کی خدمات کا معاوضہ بھی دینا پڑا اور وہ بھی اُن کا من مانا۔ بس یہیں سے حکومتی کوہ ایورسٹ کو سرکرنے کا عمل زوال کا شکار ہوگیا۔ سیاسی قلی تو اپنی خدمات کا معاوضہ لے کر الگ ہو گئے لیکن کرکٹر کو سیاست کے ایورسٹ پر الٹا لٹکتا چھوڑ گئے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کرکٹر نے حالات کی نوعیت کا احساس کرتے ہوئے خود کو سیدھا کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے مزید ایسے قدم اٹھائے جنھوں نے اُسے مزید الٹا لٹکا دیا، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ میری رائے میں کرکٹر کو چاہیے کہ اپنی نظر اور فکر میں وسعت پیدا کرے اور اپنی پارٹی کے نام نہاد رہنماؤں سے چیخ چیخ کر یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ مجھے نکالو، مجھے نکالو‘‘ سکون سے بیٹھ کراپنی ذہنی، جسمانی اور فکری قوتوں کو مجتمع کرے، ملکی مسائل کا تجزیہ کرے اور اُن کے حل پر توجہ مرکوز کرے۔ اس معاملے میں کرکٹر کو نیلسن منڈیلا کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہیے۔
نسلی امتیاز کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے نیلسن منڈیلا 27 برس تک جیل میں رہے لیکن رہا ہونے کے بعد پُر تشدد طرز کو خیر باد کہہ دیا۔ دنیا بھر میں اُن کے اس طرز عمل کی پذیرائی ملی اور آج نیلسن منڈیلا کا نام دنیا بھر میں اور جنوبی افریقہ میں ایک مدبر کا نام ہے۔منڈیلا کے اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1993 میں انھیں ’’ امن کا نوبل پرائز‘‘ دیا گیا اورہر سال 18جولائی کو، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام،دنیا بھر میں’’ یوم منڈیلا‘‘ منایا جاتا ہے۔
اب تک کے طرز عمل نے، نہ صرف خان صاحب کے لیے مشکلات میں اضافہ کیاہے بلکہ اُن کی رفیقہ حیات اور بہنوں تک کو جیل پہنچا دیا جو کسی طور بھی پسندیدہ بات نہیں۔ بے اصولی کی سیاست میں کسی فارم کا کوئی نمبر نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان کی سیاست میں بے اصولی ہی اصول ہے، لہٰذا، انھیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ انھیں ضد اور مستقل مزاجی میں فرق کو بھی سمجھنا چاہیے۔لاتعداد افراد نے جیل سے کامیاب تحریکیں چلائی ہیں۔ نہایت عمدہ کتابیں لکھی ہیں، شاعری کی ہے اور فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ انھیں رشید احمد صدیقی کے اُس بیوقوف اور ضدی بچے کا طرز عمل ترک کر دینا چاہیے جو مسجد کے اُسی دروازے سے باہر نکلنے کی جدوجہد کرتا تھا جہاں سے لا کر اُسے بند کیا گیا تھا،اگرچہ مسجد کی تمام دیواریں گر چکی تھیں۔