مثالی معاشرے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے

یہ خیال انسانی تجربے میں گہرائیوں سے گونجتا ہے، جہاں استقامت اکثر کامیابی کی طرف لے جاتی ہے



اقتباس، ’’ ایک آدمی ختم نہیں ہوتا جب وہ ہار جاتا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے جب وہ چھوڑ دیتا ہے‘‘ اسٹوک فلسفی ایپیکٹیٹس سے منسوب، لچک اور استقامت کی نوعیت کی ایک طاقتور یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ شکست زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے، چاہے ذاتی جدوجہد، پیشہ ورانہ کوششوں یا وسیع تر چیلنجوں میں۔

تاہم، اس حکمت کے مطابق، شکست بذات خود کسی کے سفر کے خاتمے کی علامت نہیں ہے۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب کوئی فرد مشکل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور لڑنا، سیکھنا یا کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ واقعی ناکام ہوتا ہے۔ Epictetus، جو اندرونی آزادی اور خود مختاری پر اپنی تعلیمات کے لیے جانا جاتا ہے، نے مصیبت کے لیے کسی کے ردعمل کی اہمیت پر زور دیا۔

ان کے خیال میں ناکامیوں سمیت بیرونی واقعات ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ تاہم، ہم جس چیز پر قابو پا سکتے ہیں، وہ ہمارا رویہ اور ہماری مرضی ہے کہ ناکامیوں سے قطع نظر آگے بڑھتے رہیں۔ چھوڑنا، پھر، نہ صرف ہاتھ میں جنگ بلکہ ذاتی ترقی اورکامیابی کی گہری صلاحیت کو ترک کرنے کا عمل بن جاتا ہے۔

یہ خیال انسانی تجربے میں گہرائیوں سے گونجتا ہے، جہاں استقامت اکثر کامیابی کی طرف لے جاتی ہے، ضروری نہیں کہ شکست سے بچا گیا ہو، بلکہ اس لیے کہ افراد نے اپنے نقصانات سے سیکھنے اور بڑھنے کا انتخاب کیا۔ چھوڑنا ان مواقع کے دروازے بند کر دیتا ہے، جب کہ استقامت کسی کو حتمی فتح کے لیے کھلا رکھتی ہے۔

اس طرح، اقتباس ہمیں شکست کو حتمی انجام کے طور پر نہیں بلکہ حتمی فتح کے عمل میں ایک قدم کے طور پر دوبارہ بیان کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغاوت کے الزام لگا کر انھیں زندہ جلا دیا جاتا تھا اورکبھی انھیں جیل کے تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی کو شش ناکام رہی، برونو کوروم میں زندہ جلا دیاگیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا، اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا۔ یورپ کا احتساب عالموں کو زندہ جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکرکو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا۔

یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غورکیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزاؤں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا۔ اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کرنے کی کوشش میں انسانی جسم کو زندہ جلایا گیا۔ جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم و سزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔ خیالات کو قید نہیں کیا جاسکتا، خیال آزاد ہے، طاقتوروں کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے نہیں رو کا جاسکتا۔

وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمدن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہوا، انسان کو یہ سفر طے کر نے میں صدیاں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے۔ اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کردی کہ انسان عظیم ہے اور عوام سپریم ہیں۔

دنیا کی تاریخ میں خدا کے بعد کرشمے عوام نے ہی کر کے دکھائے ہیں۔ یہ عوام ہی ہیں جنھوں نے آمروں ، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھال کر پھینک دیے، بڑے بڑے ظالم ، جابر بادشاہ اور آمر ان ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑکر فرار ہوگئے۔ دنیا بھرکے عوام نے خوشحالی اور ترقی کی منزلیں، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں۔ پاکستان کا قیام ایک عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکری جدوجہد کا اور یہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعدہ ان کے آباؤ اجداد سے کیا گیا تھا۔

ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے، جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہری بلا کسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو بااختیار ہوتی ہے، پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے۔ پارلیمنٹ کی منظورکردہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی۔ پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے۔

 قائد اعظم نے نئی دہلی میں رائٹرکے نمایندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا۔ ’’ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوگی‘‘ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدرکی حیثیت سے کیے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انھوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخاطب کیا۔

روسوکہتا ہے ’’میں کیسا آدمی ہوں، اس کا فیصلہ کوئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے ۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں‘‘ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پرکیسے چھوڑ ے جاسکتے ہیں شخص یا چند اشخاص غلط ہوسکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے۔ ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔

ریاست ایک منفرد کلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبدار ی تلاش نہیں کرسکتے،کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتا ہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمایندگی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے۔ آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورتحال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے۔ ’’ ہر آئین اپنے دورکا غماز ہوتا ہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے۔‘‘

وہ کہتا ہے ’’ اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصوصیات اس کے پہاڑ، آ ب و ہوا، ملک، شہریوں کی جائیداد، تاریخ ، ریاست، اسلاف کے کارنامے، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے، یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے۔ یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہری اس کا نمایندہ ہے اور اس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ۔‘‘

آخری اور قطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ’’ نہ ‘‘ کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیارکا سنگ بنیاد ہے سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ’’نہ ‘‘ کہے۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنان ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کرسکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کردے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کردار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کردیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی برکات میسر آسکیں۔

یہ ہی انسان کی عظمت ہے۔ سقراط، برونو، وکلف،شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصول کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے موت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ’’ہم محا فظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

سقراط نے بھاگنے سے انکارکر دیا اورکہا ’’ میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھ سکتاہے۔ سقراط ، برونو، وکلف نے ’’ نہ ‘‘ کہا اور اپنی جان دے دی اور صرف ’’ نہ‘‘ کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں ، لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کرنے کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، کیونکہ وہ عقل اور شعورکے مالک ہیں مثالی معاشرہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پر یقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ صرف مثالی معاشرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں