خارجہ پالیسی اور چیلنجز

حال ہی میں ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کیا اور اس ٹویٹ میں انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست ظاہر کیا ہے


جاوید قاضی January 12, 2025
[email protected]

ڈونلڈٹرمپ ابھی امریکا کے صدر نہیں بنے لیکن ایلون مسک اور ان کے ٹویٹ ساتھ متنازعہ بنتے جا رہے ہیں۔پہلی مر تبہ شاید ایسا ہوگا کہ امریکا کی سیاست میں ایک ایسا شخص جس کی با ضابطہ طور پر کوئی سرکاری حیثیت تو نہیں لیکن ہوگا انتہائی طاقتور۔

وہ ہے ٹوئیٹر، ٹیسلا اور خلاء میں راکٹ بھیجنے والا ایلون مسک۔اکنامسٹ جریدہ لکھتا ہے کہ یہ قیاس آرائیاں منطقی اعتبار سے درست ہیں کہ اس بات کا اندازہ ٹرمپ کے سابقہ دور حکومت میں ہی ہو گیا تھا کہ اس دفعہ امریکا میں انڈر ٹیبل کاروبار کے لیے لین دین ہوگا۔یعنی کچھ انفرادی لوگ اربوں ڈالر بنائیں گے،crony capitalization کے طریقہ کار سے ۔

حال ہی میں ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کیا اور اس ٹویٹ میں انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست ظاہر کیا ہے اور ایلون مسک نے اپنے ایک ٹویٹ میں برطانیہ حکومت اسکینڈل کو کھولنے کو کوشش کی ہے۔
ہمارے لیے نئی امریکی حکومت کا طریقہ کار کیا ہوگا، یہ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حکومتی مخالفین کی رائے بھی اس حوالے سے حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس کے برعکس جو حکومت کی رائے ہے، وہ بھی حقیقت پسندانہ نہیں۔اس وقت پاکستان کے لیے خوش آیند بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنا امیج اچھا بنانے جا رہا ہے۔

یہ ملک اس وقت نہ ہی دہشت گردی کی آماجگاہ ہے اور نہ ہی شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ایسا ہونا بھی پہلی بار ہے کہ افغانستان اور پاکستان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان کا یہ امیج کہ افغانستان کی سرحدوں سے ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان ملوث ہے، اب نہیں رہا۔

اس پس منظر میں امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا یا پھرافغانستان کے ساتھ؟ٹرمپ حکومت میں پاکستان مخالف سوچ حاوی نظر آئے گی اور زلمے خلیل زاد جیسے لوگ پاکستان کے خلاف پہلی صف میںنظر آئیں گے۔

امریکا کے اندر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر ایک الگ بلاک بنا لیا ہے۔افغانستان کے لیے بہرحال ان کی رائے تبدیل نہ ہوگی لیکن وہ پاکستان اور افغانستان کے بڑھتے ہو ئے تنازعے پر خوش ہوںگے کہ پاکستان ان سرحدوں پر مصروف رہے۔

ٹرمپ کی حکومت میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے لوگ کان بھرائی کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیں گے۔ بنگلہ دیش میں موجودہ تبدیلی کے باعث ہندوستان اس وقت حیران کن حد تک پریشان ہے کیونکہ اس تبدیلی کی وجہ سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں مثبت ٹھہراؤ آیا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں اپنے بین الاقوامی تعلقات اور خارجی پالیسی کو متحرک کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔

امریکا سے اپنے تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لیے ہمیں امریکا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین کو کبھی امریکی مفاد کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا اور یہ بات شاید ان کو سمجھ بھی آجائے کیونکہ ہم خود ان قوتوں سے لڑ رہے ہیں جو افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
یہ خوش آیند بات ہے نواز شریف صاحب دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہے ہیں،اگر وزارتِ خارجہ کے فرائض دوبارہ بلاول بھٹو کو سونپ دیے جائیں تو یہ بات ہماری خارجہ پالیسی کے لیے مثبت ثابت ہوگی۔ پاکستان واحد مسلم ملک ہے جو ایک ایٹمی طاقت ہے۔

دوسرے اسلامی ممالک پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ان کے تعلقات ہندوستان سے بھی خوشگوار ہیں لہٰذا ایسے دوست ممالک سے ضرور مدد لینی چاہیے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات کو بہتر بنائیں، ان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان جو بھی غلط فہمیاں ہیں ان کو دور کیا جائے تاکہ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی راہیں ہموار ہوں۔

ان کے تجارتی تعلقات استوار ہو سکیں کیونکہ تجارت سے بڑا امن کا سفیر کوئی نہیں۔ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش اگر تجارت کے میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں، ویزا کی پالیسی میں ایک دوسرے کے لیے نرمی لائیں ، تجارت ٹیکس فری کردیںتو یہ خطہ دنیا کے نقشے پر بہترین خطہ بن کر ابھرے گا۔بلکہ ایسا کہیے کہ چین بھی ان کی تجارت سے مستفید ہوگا۔

پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اب بھی بہت کمزور ہے۔نہ سیاسی پارٹیاں مضبوط ہیں اور نہ ہی لیڈر شپ مضبوط ہے۔ پون صدی کی آزادی میں ہم آج تک صاف اور شفاف انتخابات کرانے میںناکام ہیں۔یہ کہنا کہ اسٹبلشمنٹ ، سیاست میں مداخلت نہ کرے یہ بات اخلاقی طور پر تو درست ہے مگرلیکن زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔میاں صاحب اور بے نظیر بھٹو، ان حقائق پر بہت کام کیا لیکن آگے جاکر جب بھی ان میں سے ایک سے بھی اسٹبلشمنٹ نے تعلقات بنائے اور اقتدار ملا تو مزید پیش رفت تو ویسے ہی رک جاتی ہے اور یہ بات اسٹبلشمنٹ نے کیوںکر محسوس کرے کہ جب ہم پر بیرونی دباؤ پڑتے ہیں تو سیاستدانوں کا کردا ر بڑھ جاتا ہے اور وہ ہی بہتر طریقے ثالثی انجام دے سکتے ہیں۔

کمزور سیاسی قیادت ہی ہم پر بیرونی دباؤ بڑھنے کا ایک سبب ہے۔وہ صرف ذوالفقار علی بھٹو تھے جنھوں نے امریکی وزیر خارجہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا تھا کہ ہم ایٹمی طاقت ضرور بنیں گے اور یقینا اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو اس خطے میں ہماری حیثیت کس قدر کمزور ہوتی۔ہم بھی ہندوستان کے گرد گھوم رہے ہوتے مگر دور اندیش سیاسی قیادت نہ ہونے کی سبب ہم نے اپنے ایٹمی طاقت کو مہم جوئی کے لیے استعمال کیا اور جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔اب تک اس ملک میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہیں ابھری۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو امریکا نے ہمیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔یہ امریکا کے مفاد میں ہے کہ تیسر ی دنیا کے کسی ملک میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت نہ ہو تاکہ وہ ان ممالک کو آسانی سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکے۔ ہمارے ایٹمی طاقت ہونے کے مفاد میں ہے کہ ہم ایک مضبوط معاشی قوت بھی ہوں اور مضبوط سیاسی قیادت بھی رکھتے ہوں۔پاکستان کے لیے بین الاقوامی سیاسی جریدے یہ تحریر کریں کہ پاکستان اب ایک مضبوط معاشی قوت بننے جا رہا ہے اور اب پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے کوئی بھی دنیا کا امن خراب نہیں کر سکتا۔

ایک تسلسل ہوتا اگر امریکا ، ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کو ختم نہ کرتا اور نہ ہی بھٹو ان سے اس قدر ٹکراؤ میں آتے اور نہ ہی یہاں جمہوریت کمزور ہوتی۔اس طرح یہ ملک جنرل ضیاء الحق کے ہتھے نہ چڑھتا اور آج ہم شاید ہندوستان سے کہیں زیادہ آگے ہوتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے پاکستان کے لیے جو معاشی پالیسی تھی وہ نہرو جیسی تھی نہ کہ من موہن سنگھ کی پالیسی۔وہ بھی مارکیٹ اکانومی کے خلاف تھی۔

اس وقت پاکستان نے ایک اصولی موقف اپنا لیا ہے کہ اب بارڈر اسمگلنگ نہیںہو گی۔ افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے۔ان کے پاس سمندر کا کنارہ نہیں، لہٰذا ان کا بنیادی کاروبار منشیات، اسلحے کی اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی کاروبار ہیں۔نیز یہ کہ افغانستان ایک مہذب اور ذمے دار ریاست نہیں اوروہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس لیے مہذب دنیا کو اس حوالے سے ہمارے ساتھ کھڑا رہنا ہوگا۔یہ وہ جنگ ہے جو نہ صرف ہم اپنے اندرونی بحران کو ختم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ اس دنیا کا بھی بھلا ہو جائے گا وہ اس لیے کہ ہمارے مفادات اس دنیا کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں اور اس موقف کو بین الاقوامی فورم پر اجاگر کرنی کی ضرورت ہے۔مستقبل میں بین الاقوامی تعلقات کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو ان دوستوں کو آگے لائیںجو ہمارا امیج دنیا میں بہتر بنا سکتے ہیں اور ایسی سازشوں کا قلع قمع کر سکتے ہیں جو ٹرمپ حکومت کو پاکستان کے خلاف گمراہ کر سکتے ہیں۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں