شخصیت پرستی کا نقصان

ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں


سلمان عابد January 12, 2025
[email protected]

پاکستانی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ شخصیات کے گرد کھڑی ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں ادارہ سازی کے بجائے افراد زیادہ مضبوط ہوتے ہیںاور انھی کی بالادستی ہوتی ہے۔ شخصیت پرستی کی بنیاد اگر نفرت، تعصب اور منفی بنیادوں پر یا شدت پسندی سمیت جنونیت پر ہوگی تو اس سے قومی سیاست کے اندر اور زیادہ مسائل گہرے ہو جائیں گے۔

بنیادی طور پر پاکستان میں شخصیت پرستی کو کمزور کرنے کے حوالے سے اہل دانش کی سطح پر بھی کوئی بڑا کام نہیں ہو سکا۔کیونکہ جو کام اہل دانش نے اپنی سطح پر انفرادی اجتماعی سطح پہ کرنا تھا، اس کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جا سکی۔سیاسی جماعتوں میں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن بنا کر پیش کرنے کا رواج بتدریج بڑھ رہا ہے۔

یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم قومی سیاست کی ترتیب میں منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔جب کہ مثبت پہلو ہماری قومی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکے۔شخصیت پرستی سے نمٹنے کے لیے ہمیں اہل دانش کی سطح پر یا علمی اور فکری بنیادوں پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔مگر یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں،اس کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے اندر تمام طبقات مل جل کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ وہ لوگوں کے سیاسی اور سماجی شعور کو آگے بڑھائیں۔

شخصیت پرستی کا یہ کھیل پاکستان کی قومی سیاست کے اندر ایک بانج پن کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔جس سے نئی قیادت کا ابھرنا اور نئی جدید سیاسی تصورات کا ابھرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ صدی افراد کے مقابلے میں ادارہ سازی کی صدی ہے، اس لیے ہمیں شخصیت پرستی کے بجائے ادارہ سازی پر توجہ دینی ہوگی۔ شخصیت پرستی کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی تمیز کو ختم کر دیتا ہے۔

لوگوں میں اندھی تقلید کو فروغ دیتا ہے۔جو معاشرے کو تنگ نظری کی طرف لے کر جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی سماجی اور علمی اور فکری نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس نے شخصیت پرستی کے معاملے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس شخصیت پرستی نے ہمارے سیاسی سماجی معاشی اور انتظامی ڈھانچوں کو کھوکھلا بھی کر دیا ہے۔

لیکن اس کا علاج ہماری ترجیحات کا حصہ نظر نہیں آرہی۔اس لیے اس پر زیادہ غور ہونا چاہیے کہ ہم شخصیت پرستی کے کھیل میں کیسے خود کو باہر نکال سکتے ہیں اور کیسے ادارہ سازی کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔کیونکہ جب ادارے بالادست ہوں گے تبھی ریاست کی جدیدیت کا پہلو سامنیآئے گا اور ہم عالمی دنیا میں بھی اپنی ساکھ کو قائم کر سکیں گے۔

جہاں افراد کے مقابلے میں ادارے بالادست نہیں ہوں گے تو وہاں لوگوں پر بھروسہ زیادہ ہوگا اور لوگ اداروں کے مقابلے میں افراد پر انحصار کریں گے۔جب کہ آئین اور قانون کی پاسداری کا براہ راست تعلق افراد سے زیادہ ادارہ سازی کی مضبوطی اور شفافیت سے جڑا ہوا ہے۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا، اس میں ہم سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔

اس میں اصل کام علمی اور فکری بنیادوں پر ہونا چاہیے اور خاص طور پہ ہمارا تعلیمی نظام اس میں بنیادی تبدیلیاں درکار ہے۔نئی نسل پرانے خیالات کو چیلنج کر رہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ شخصیت پرستی کے اس کھیل نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان ایک ٹکراؤ کا ماحول بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔نئی نسل مسائل کا حل چاہتی ہے اور ریاست سے سوال اٹھا رہی ہے۔ ریاست کو ان سوالوں کا جواب دینا ہے۔

شخصیت پرستی کے اس کھیل نے سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام کو بھی کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔سیاسی جماعتیں بظاہر سیاسی جماعتیں کم اور نجی ملکیتی کمپنیاں زیادہ لگتی ہے۔ ان جماعتوں میں جو بھی شخصیت پرستی کو چیلنج کرتا ہے یا قیادت کو چیلنج کرتا ہے تو ان کے لیے راستے محدود کر دیے جاتے ہیں۔شخصیت پرستی کا کھیل سیاسی جماعتوں میں موجود لوگوں کو پیغام دیتا ہے کہ وہ قیادت کی تابعداری کریں۔اور جو اس کے حکم کو ماننے سے انکار کر دے وہ متبادل راستہ اختیار کرے۔یہ عمل سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ رجحان اور ڈکٹیٹر شپ کو فروغ دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں