پینشن کےلیے ترستے حق دار اور بے حس حکمران

برسوں ملک کی خدمت کرنے والے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ہی پینشن کےلیے دربدر ہورہے ہیں


ویب ڈیسک January 12, 2025

(تحریر: سیدہ عبیرہ حسین)

پہلے زمانے میں حساس دل رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے جو پڑوسیوں کے حقوق، رشتے داروں، بہن بھائیوں کے حقوق اچھی طرح جانتے تھے۔ نوکری ایمانداری سے کرتے تھے، حرام کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے، رشوت سے دور بھاگتے تھے۔ تبھی ان کی اولاد فرمانبردار، تمیزدار اور شریف ہوا کرتی تھیں۔

مگر افسوس صد افسوس اب ٹرینڈ بدل چکا ہے۔ لوگ لالچ کے گڑھے میں ایسا گرے کہ نہ پڑوسی یاد رہے نہ رشتے دار۔ یاد ہے تو صرف اور صرف پیسہ براؤن نیلے ہرے قائداعظم۔ ورنہ قائداعظم کو کون یاد رکھتا ہے کہ کس طرح ان کی محنت سے اس وطن کا حصول ممکن ہوا۔ آج ہر ادارے میں رشوت خور منافق لوگ کثرت سے ملتے ہیں جس طرح پرانے زمانے میں شریف ہوا کرتے تھے۔

لوگوں کے حقوق غصب کرنا عام بات ہے اور مزے کی بات یہ کہ پشیمانی بھی نہیں۔ جس طرح ان کے آباواجداد منوں مٹی تلے جا سوئے اسی طرح آج ہر شخص کا ضمیر بھی منوں مٹی تلے دب کے حادثاتی موت مارا جاچکا۔ ورنہ انہیں احساس ہوتا کہ 30، 35 سال اپنا خون پسینہ ایک کرکے سردی گرمی خزاں بہار کی پرواہ کیے بغیر آنے والی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والوں کے اپنے بھی بچے ہیں، گھر ہیں۔ گھر چلانے کےلیے پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔

جب نوکری میں ہوتا ہے تو اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کا ادارہ جہاں اس کی تنخواہ کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، کتنی بیسک سیلری ہے، کتنی گروس، کتنا جی پی فنڈ کٹے گا، کتنا ہوگیا ہے، کون کون سے الاؤنسز ملیں گے، کون سے نہیں؟ سب ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ سیلری کون سے بینک میں جاتی ہے؟ سب کچھ وہاں ایک رہکارڈ میں لکھا ہوتا ہے جس کی ہر ماہ تفصیل کی ایک پے سلپ ملتی ہے جس میں سب ریکارڈ شو ہوتا ہے۔ مگرریٹارئرمنٹ کے بعد اس کے واجبات کا حصول اس قدر مشکل بنادیا گیا کہ اسے اپنے ہی پیسے لینے کےلیے کبھی سیکریٹری کے پاس تو کبھی ڈائریکٹر کے پاس تو کبھی ریجنل ڈائریکٹر کے پاس دھکے کھانے پڑتے ہیں۔

مگر فائل مہینوں آگے بڑھتی ہی نہیں جب تک اس میں قائداعظم کے کتھئی نیلے ہرے لال رنگ کے پہیے نہ لگیں۔ پینشن بھی بیسک پر چلتی ہے۔ میرا سوال اس ملک کی حکومت میں بیٹھے راشی کرپٹ حکمراںوں سے ہے کہ کیا بھوک صرف آپ کو لگتی ہے؟ عیش صرف آپ کے بچوں کا حق ہے؟ گاڑی میں صرف آپ گھوم سکتے ہیں؟ اچھے ہوٹلوں میں کھانا صرف آپ کھا سکتے ہیں؟ برانڈڈ کپڑے، جوتے، گھڑی، چشمے آپ لگاسکتے ہیں؟ وہ شخص جس کی بدولت آپ اس مقام تک آئے، ترقی کی منزلیں طے کیں، وہ ریٹائرڈ ہوکر دفتروں کے دھکے صرف اس لیے کھاتا ہے کہ اس کے واجبات ملیں تو اس کے گھر راشن آسکے، اس کے بچوں کی فیسیں، گھر کا کرایہ، دوا وغیرہ کا انتظام ہو۔

یہ بڑے بڑے بیورو کریٹ، ایوانوں میں بیٹھے ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر آنے والے حکمران، اس ظلم کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے؟ کیوں استادوں سے استادی دکھا کر ان کی پینشن گریجویٹی کی فائلیں صرف اس لیے چھپائی جاتی ہیں کہ وہ ملنے والے پیسوں میں سے انہیں بھی بھاری حصہ دیں۔ اے جی سندھ کے پاس ریکارڈ موجود ہونے کے باوجود ہر چیز کا ریکارڈ مانگ کر استادوں کو تنگ کیوں کیا جاتا ہے؟ ہر بار نئے اعتراضات لگا کر آفسز کے دھکے کھانے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں ہمارا ملک ترقی نہیں کرتا۔

جس قوم کے استاد تیس پینتیس سال پڑھانے کے بعد اپنے واجبات کے حصول کےلیے دھکے کھائیں اور ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں اس کے پیسوں کا حصول ممکن ہو تو تف ہے ایسے اداروں پر جو استاد کی تذلیل کرتے ہیں۔ پھر وہ معاشرے بھی زلیل و خوار ہوتے ہیں جو استاد کو روز آفسوں کے دھکے کھلاتے ہیں۔

میری حکام بالا سے درخواست ہے خدارا سسٹم کو بدلیں۔ حقدار کو اس کا حق دینے میں مہینوں یا سال نہ لگائیں۔ واجبات کا حصول آسان بنائیں۔ جب تک واجبات کلیئر نہ ہوں کم از کم اس کی پینشن تو پوری ادا کردیں۔ جبکہ قانون جاری ہوچکا کہ کسی کی پینشن نہیں روکی جائے گی۔ آج اگر ڈائریکٹوریٹ کا دورہ کریں تو ہزاروں ریٹائرڈ افراد کی فائلیں دفتروں میں دھول میں اٹی ہوئی ملیں گی جن پر دستخط کروانے کےلیے مہینوں ایک استاد رل رہا ہے۔ آخر کیوں؟

اس پروسیس کو آسان کیوں نہیں بنایا جاتا؟ جبکہ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ میں سب ریکارڈ موجود ہے تو جلد از جلد تمام کاغذی کارروائی مکمل کرکے ان کے واجبات کلیئر کیوں نہیں کیے جاتے؟ حکام بالا، سپریم کورٹ اس پر قانونی ایکشن لے اور پینشن اور واجبات کا حصول ممکن بنانے کےلیے ایک تاریخ مقرر کریں کہ ڈائریکٹوریٹ میں کسی کی بھی پینشن کی فائل 15 دن سے زیادہ رکے گی تو جرمانہ لگے گا، باقی ادارے بھی ایک مہینے کے اندر اندر پابند ہوں گے کہ کسی کے بھی کاغذات روکے نہیں جائیں گے، فوری سائن کرکے اے جی سندھ کو بھیجے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں