اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بجلی کے بلوں پر ٹیکسوں کا جائزہ لے رہی ہے

ہیکنگ کے باعث کمپیوٹرائزڈ ٹیکس نظام دو دھاری تلوار بن چکا، ہیکرز اربوں روپے کا ٹیکس چوری یا ریفنڈکلیم کرتے ہیں 


محمد الیاس January 12, 2025
ایف بی آر زرعی آمدن پر انکم ٹیکس نہیں لے سکتا: وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی ’’ایکسپریس‘‘ کے ساتھ نشست کا احوال۔ فوٹو : فائل

وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ1962ء میں پاکستان کے شہر سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے طب اور سرجری میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے 1992ء میں کسٹمز میں اسسٹنٹ کلیکٹر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور بعدازاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں چیف کلیکٹر (کسٹمز) کے عہدے تک پہنچ گئے۔

انہوں نے 29 ستمبر 2021ء کو وفاقی ٹیکس محتسب کا حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر آصف ایک مصروف سرکاری افسر ہونے کے باوجود گزشتہ 30 سال سے روزانہ غریب اور نادار مریضوں کا معائنہ اور علاج کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان بھر میں ہسپتال، موبائل کلینک، 43 ڈسپنسریاں، کمیونٹی ویلفیئر سینٹرز اور سکول بھی قائم کیے ہیں۔

انہوں نے سرحدوں کے پار بھی کام کیا اور بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں اور ترکی اور شام میں شامی پناہ گزینوں کے لیے امدادی سامان فراہم کیا۔ 14 اکتوبر 2021 کو، انہوں نے افغانستان کے بھائیوں کے لیے انسانی امداد کے طور پر 20 کنٹینرز پر مشتمل امدادی سامان کا بڑا قافلہ روانہ کیا۔ انہوں نے تھر گرین کیمپین شروع کی، جو کہ وزیر اعظم پاکستان کے صاف ستھرا پاکستان پروگرام کے تحت ہے، جس میں تھر کے علاقے میں 1000 ایکڑ پر 150 سبز فارم قائم کیے گئے ہیں جہاں گندم، سبزیاں اور مویشیوں کے لیے چارہ اگایا جا رہا ہے۔

انہوں نے تھر کی خواتین کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے منصوبے کا بھی آغاز کیا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی قیادت میں کسٹمز ہیلتھ سوسائٹی نے اب تک سندھ اور بلوچستان میں 1100 پینے کے پانی کے کنویں کھودے اور 1000 ہینڈ پمپس نصب کیے ہیں تاکہ تھر اور بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ آبادی کو صاف پانی فراہم کیا جا سکے۔

ڈاکٹر آصف ایک معروف مصنف بھی ہیں، جنہوں نے 26 کتب لکھی ہیں۔ ان کی کتاب ’’دوا، غذا اور شفا‘‘ ایک گھریلو رہنمائی ہے، جس کی 50,000 سے زائد کاپیاں شائع ہو چکی ہیں اور یہ قومی کتاب فاؤنڈیشن کی جانب سے پچھلے پانچ سالوں سے بہترین فروخت کنندہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ڈاکٹر آصف کو 23 مارچ 2021ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی جانب سے ہلال امتیاز اور 23 مارچ 2016ء کو ستارہ امتیاز عطا کیا گیا، جو پاکستان اور بیرون ملک انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

سوال: اپنی بتدائی زندگی کے متعلق کچھ بتائیں؟

جواب: میرے والد صاحب نے انڈیا کے ضلع ہوشیارپور سے ہجرت کی تھی، انہوں نے پنتالیس میل کا فاصلہ ساڑھے تین ماہ میں طے کیا، وہ پہلے والٹن (لاہور) میں واقع سول سروس اکیڈمی میں قائم کیمپ میں مقیم ہوئے لیکن پھر وہاں سے ضلع سرگودھا میں سیٹل ہوگئے۔ والد بشیر احمد مرحوم نے چار نسلوں کو پڑھایا، وہ بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ میں نے وفا، ایثار، دیانت اور امانت کے سبق انہی سے سیکھے۔

سوال:وفاقی ٹیکس محتسب میں اپنے تجربات اور سوا تین سال کی تعیناتی کے دوران کون سے بڑے کیسز سامنے آئے؟

جواب:وفاقی بورڈ آف ریونیو میں اپنے 30 سالہ وسیع اور متنوع انتظامی تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، میں نے شکایات کے ازالے کیلئے مخصوص 60 دن کی معیاد کو 45 دن کردیا ہے، اب اپنے فیصلوں پر بروقت عمل درآمد اس دفتر کی پہچان بن گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی کارکردگی جانچنے کے اشاریے (KPIs) مرتب کئے۔

کمپلینٹ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (CMIS) اور ماہانہ کارکردگی رپورٹ (MPR) کے ذریعے اْن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر نے جدید ترین انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے استفادہ کرنے کے لئے مربوط و منظم کوششیں کیں۔ شکایت کنندگان اور ایف بی آر کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ( ٹویٹر، واٹس ایپ، فیس بک اور ای میل) کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا اور ایف ٹی کی رسائی کو بڑے کاروباری مراکز سے چھوٹے شہروں تک بڑھا دیا گیا۔

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے خصوصی سہولیات متعارف کرائی گئیں۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم شکایت کنندگان آن لائن سسٹم کے ذریعے اپنی شکایات پر تازہ ترین کارروائی جان سکتے ہیں۔ انہیں ای میل کے ذریعے بھی شکایت کی تازہ ترین صورتحال، حتمی نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے انتظامی اقدامات اور ٹھوس کوششوں کی وجہ سے 2023ء کے مقابلے میں 2024ء میں موصولہ شکایات میں واضح اضافہ ہوا۔ سال 2023 میں ملنے والی 8963 شکایات کے مقابلے میں 2024ء میں اب تک 12754 شکایات (تقریباً 42 فیصد زائد) موصول ہوئیں۔ 2024ء میں 51 فیصد زائد شکایات کا ازالہ ممکن ہوا۔ سال 2023 میں نمٹائی گئی 7889 شکایات کے مقابلے میں اب تک کل 11943 شکایات کا ازالہ کیا جا چکا ہے۔ سابق صدرِ پاکستان نے ٹیکس چوری کی روک تھام کیلئے ایک معاملہ ایف ٹی او سیکرٹریٹ کو بھجوایا۔

انہوں نے لکھا کہ پچھلی دو تین دہائیوں کے دوران نجی تعلیمی اداروں کی افزائش کھمبیوں کی طرح ہوئی ہے۔ دل کش نعروں، اعلیٰ ڈگریوں اور کورسز کی گردان، گمراہ کن اور بوگس سرٹیفیکیٹس کے دعووں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بھری پڑی ہیں۔ سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کے ذریعے عوام کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اپنی ویب سائٹ پر جعلی اور غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں کی معلومات سے عوام الناس کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ (سابق) صدر مملکت نے اپنے ریفرنس میں ڈیڑھ سو کے قریب ایسے اداروں کی نشاندہی کی۔

صدارتی ریفرنس کی تعمیل میں ایف بی آر اور اس کے ذیلی دفاتر سے تین سوالات پوچھے گئے، (i) یہ ادارے ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ ہیں، فائلر ہیں یا نان فائلر اور باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کرا رہے ہیں یا نہیں؟ (ii) عمارات ان کی اپنی ہیں یا کرائے پر لی گئی ہیں۔ کرایہ کی آمدنی پر ٹیکس جمع کرایا جا رہا ہے یا نہیں؟ (iii) یہ ادارے ودہولڈنگ ایجنٹس ہیں یا نہیں؟ ایف ٹی او کے دفتر میں کارروائی شروع ہونے کے بعد متعدد ادارے اپنے دفاتر بند کر کے بھاگ گئے۔ چار ادارے ایف بی آر میں رجسٹرڈ تھے جن میں سے تین اداروں کے ٹیکس گوشوارے نامکمل تھے، ان کو شوکاز نوٹسز جاری کرائے گئے۔ صرف ایک ادارہ باقاعدگی سے ٹیکس جمع کرا رہا تھا۔

یہاں میں گنگارام ہسپتال اور میو ہسپتال کی کسٹم میں پھنسی ہوئی اہم مشنری کا بھی حوالہ دوں گا جن کے ریلیز نہ ہونے سے آپریشنز میں رکاوٹ اور وینٹی لیٹرز کی کمی کا سامنا تھا۔ گنگا رام ہسپتال کے معاملے میں کراچی گیٹ وے کنٹینر ٹرمینل نے ڈیلے اور ڈیٹینشن چارجز میں کمی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہم نے کسٹم حکام سے کہا کہ اگر ٹرمینل آپریٹرز کسٹم کے فیصلے کے مطابق ان چارجز میں کمی نہیں کرتے تو پھر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

قانون میں لائسنس منسوخ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ ٹرمینل آپریٹرز نے صدر مملکت اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی اپیل داخل کی کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔

انہوں نے وفاقی حکومت کے مالیاتی بل کو بھی چیلنج کیا کہ کسٹم ایکٹ 1969 کی شق 14A(2)فناس بل 2013 کے ذریعے کسٹم ایکٹ میں شامل کی گئی تھی جو کہ ترمیم کا درست طریقہ نہیں ہے مگر صدر پاکستان او اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی اپیلیں مسترد کر دیں۔ اسی طرح، انکالوجی ڈیپارٹمنٹ، میو ہسپتال کیلئے منگوائے گئے طبی آلات بھی ٹرمینل آپریٹرز نے روک رکھے تھے، انہیں بھی چھڑایا گیا، جس سے تین سال سے رکے ہوئے آپریشنز دوبارہ شروع ہو گئے۔

سوال : آپ نے کہا تھا کہ 30ہزارروپے سے کم کے چیک پر ٹیکس نہیں ہے لیکن یہاں تو پانچ ہزار روپے کے چیک پر بھی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ، کیا ٹیکسوں میں بچت ممکن ہے؟

جواب: قانون کے تحت ٹیکسوں میں بچت ممکن ہے لیکن ہمارے ہاں قانون کا صحیح اطلاق نہیں کیا جاتا۔ 20 سے 40 فیصد تک ٹیکس کٹوتیوں کے خلاف پنجاب آرٹس کونسل کے سینکڑوں پرفارمرز نے تین درخواستیں ایف ٹی او میں داخل کیں۔ ان کے نمائندے سید ناصر علی گیلانی نے لکھا کہ محدود آمدنی، مشاہرے یا شرکت کی فیس پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 156 اور دیگر شقوں کے تحت 40 فیصد تک ٹیکس کاٹا جا رہا ہے۔

اس اعزازیے، فیس، معاوضہ کی ادائیگی کے وقت فائلر سے 20 فیصد اور نان فائلر سے 40فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ آرٹس کونسل کے نمائندے نے مزید وضاحت کی کہ بنیادی طور پر یہ ایک اعزازیہ ہوتا ہے۔ اگر کہیں انعام کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہاں بھی اس سے مراد شرکت فیس ہی ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 156 میں انعامات سے مراد پرائز بانڈ، ریفل ، لاٹری یا کوئز کا انعام ہے لہٰذا جو بچے ثانوی تعلیمی بورڈ یا کسی اور ادارے سے ایسا انعام حاصل کرتے ہیں تو ان پر اس شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ شق 156 جن سرگرمیوں/ تقریبات کا احاطہ کرتی ہے اس کا اطلاق پرفارمرز کے معاوضوں پر نہیں ہوتا۔اسی طرح کسی ایک مالی سال میں مجموعی طور پر 30 ہزار روپے سے کم کے چیکوں پر ایڈوانس ٹیکس نہیں کاٹا جا سکتا۔ ایف ٹی او نے ساڑھے پانچ لاکھ سموں کی بندش کا بھی نوٹس لیا۔

ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی شق 114B کے تحت 2 اپریل 2024ء کو انکم ٹیکس جنرل آرڈر (ITGO) نمبر 1/2024 کے ذریعے غیر فعال ٹیکس دہندگان کی5 لاکھ 66 ہزار سے زائد موبائل سموں کو بند کر دیا تھا اور شکایات کنندگان اپنی سمیں کھلوانے کے طریقہ کار سے واقف نہ تھے۔ ایف بی آر نے ہمیں لکھا کہ چیف کمشنروں اور کمشنروں سے تصدیقی سرٹیفکیٹس حاصل کرنے کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کی شق 114B کے تحت ساڑھے پانچ لاکھ افرادکو نوٹسز جاری کئے گئے تھے۔ مقررہ تاریخ تک گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کی سمیں بند کی گئیں۔

سموں کو دوبارہ فعال کرنے کا اختیار وزارت آئی ٹی کو دے دیاگیا تھا۔ ایف بی آر روزانہ ریٹرن جمع کرانے والوں کی فہرست سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کو آگاہ کرتا ہے جو 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر سموں کو دوبارہ فعال کر دیتی ہیں۔ ایف ٹی او نے بعض نجی میڈیکل کالجوں کے خلاف بھی کارروائی کی۔ بعض میڈیکل کالجوں کے اکاؤنٹس میں موجود کروڑوں روپے قانوناً درست نہیں تھے۔

کچھ میڈیکل کالجوں نے این پی او کا سرٹیفیکٹ تو لیا تھا لیکن لازمی آڈٹ نہیں کرایا۔ محکمے نے بعض میڈیکل کالجوں کا مالی سال 2018 سے آڈٹ ہی نہیں کیا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کی کارروائی کے بعد آڈٹ شروع کیا گیا۔ کچھ میڈیکل کالجوں نے این پی او کا سرٹیفیکٹ لینے کے بعد اپنے تمام فنڈز ٹیکس فری ظاہر کئے۔ قانونًا وہ صرف فلاحی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والے فنڈز پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل کر سکتے تھے۔کچھ میڈیکل کالجوں نے ڈاکٹروں اور پیشہ ور افراد کی تنخواہوں کی معلومات ٹیکس حکام کے ساتھ شیئر نہیں کیں۔ ہمارے اقدامات سے سرکاری خزانے میں کئی ارب روپے زیادہ جمع ہوں گے۔

سوال: بجلی کے بلوں پر کئی طرح کے ٹیکسز عائد ہیں یہ معاملہ آپ کے دائرہ کار میں آتا ہے؟

جواب: جی بالکل:ہمارے فیصلے کے بعد ایف بی آر، لیسکو اور انرجی ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بلوں پر ٹیکسوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ دراصل، بجلی کے درجنوں صارفین نے شکایت کی تھی کہ ان کے بلوں پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس سمیت متعدد دیگر ٹیکسز وصول کئے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ کم آمدنی والوں کے بجلی کے بلوں پر بھی جی ایس ٹی نافذ ہے، جو کہ فائلر بھی نہیں ہیں۔

الیکٹرسٹی ڈیوٹی بھی ملک بھر میں وصول کی جا رہی ہے۔ پنجاب انرجی ڈیپارٹمنٹ نے ہزاروں جعلی اور غیر فعال میٹروں کا بھی انکشاف کیا۔ قانونی طور پر یہ ڈیوٹی بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے، اس شق پر عمل نہیں ہو رہا بلکہ یہ رقم بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو رہی ہے۔

آئیسکو، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں مقیم صارفین سے بھی صوبائی لیوی وصول کر رہی ہے جو کہ قانوناً غلط ہے۔ ایف بی آر نے ہمارے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان کو درخواست بھیجی تھی جسے صدر مملکت نے مسترد کرتے ہوئے کمیٹی بنانے کی سفارش منظور کر لی تھی۔ صدرِ مملکت کے فیصلے کے بعد آصف رسول (چیف سیلز ٹیکس) نے ایل ٹی او کو کمیٹی بنانے کی ہدایت دی۔ اس پانچ رکنی کمیٹی نے کمشنر ایل ٹی او کی سربراہی میں کام شروع کر دیا ہے۔

سوال: ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ نان رجسٹرڈ سپلائرز سے کاروبار کرتے ہیں انہیں اپنی ریٹرن جمع کرانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ ریفنڈ بھی واپس نہیں لے سکتے، اس کا کوئی حل ہے؟

جواب: یہ واقعی ایک سنگین مسئلہ ہے کیوں کہ سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 کی شق 7(2)(i) کے تحت اگر کوئی سپلائر اِن پٹ ٹیکس کی ادائیگی کا اعلان نہیں کرتا تو اس کی واپسی کا دعویٰ داخل نہیں کیا جا سکتا۔ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی شق 8A میںٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری خریدار اور سپلائر، دونوں پر ڈالی گئی ہے۔

7 مارچ 2024ء کے بعد سے اگر واپڈا، پٹرولیم کمپنیوں اور گیس کی تقسیم کار یا پیداواری کمپنیوں نے سیلز ٹیکس ادا کرنے کے بعد رجسٹرڈ افراد کو رسیدیں دی ہیں تو سسٹم سے انہیں حذف نہیں کیا جا سکتا۔ہم نے IRIS میں بلا تاخیر بہتری لانے، اور گاہکوں اور خریداروں کو سیلز ٹیکس گوشوارے داخل کرنے میں ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کیلئے نئی تجاویز کا جائزہ لینے کی ہدایت دی۔

سوال:کوئی اتنا پرانا معاملہ بھی آیا جسے پڑھ کر ہنسنی آئی کہ یہ کب سے پھنسا ہوا ہے؟

جواب: بہت سے کیسز آتے رہتے ہیں؟مثلاً، ریفنڈ کا ایک کیس 18 سال پرانا تھا، ہم نے اسے 45 دن میں حل کیا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی شق 11B کے تحت اپیل ایفیکٹ نہ دینے پر یہ شکایت درج کرائی۔ محکمے نے 15مارچ 2006ء کو شکایت کنندہ سے بھاری سیلز ٹیکس کا مطالبہ کیا، جسے ٹریبونل نے 28 ستمبر 2009ء کو کالعدم قرار دے دیا۔

محکمے نے عدالتِ عالیہ میں ریفرنس دائر کیا جسے 19 اکتوبر 2020ء کو خارج کر دیاگیا۔ہم نے اپنی سفارشات میں لکھا کہ عدالتِ عظمیٰ نے رٹ درخواست نمبر PLD1998 SC 64 میں حکم دیا ہے کہ جائز رقم کی واپسی سے انکار نہیں کیا جا سکتا، چاہے رقم کی واپسی کی درخواست تاخیر سے ہی کیوں نہ داخل کی جائے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کے آرٹیکل 24(1) میں عہد کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس کی جائیداد/ ملکیت سے جبراً محروم نہیں کیا جائے گا۔

 سوال: نیلامی میں گھپلوںکے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، کتنا سچ ہے؟

جواب: ایسے بہت سے کیسز آتے رہتے ہیں۔ دوبارہ نیلامی کی شکایت بھی ہوتی رہتی ہیں جیسا کہ ایک شکایت کنندہ نے دسمبر کے آخری ہفتے میں جاپان میں ایک گاڑی شپنگ لائن کے حوالے کی۔ سمندری جہاز کی روانگی میں تاخیر ہونے سے گاڑی پہنچنے میں چھ دن کی تاخیر ہوئی۔ اس معمولی انحراف کا حل امپورٹ پالیسی آرڈر کے ضمیمہ-E کے پیرا 3(2) میں درج ہے۔ پھر تاخیر کی اجازت دینے کا معاملہ وزارت کامرس میں زیرِ غور تھا مگر کسٹم حکام نے دوبارہ نیلامی کا حکم دے دیا۔

سوال: بیرونِ ملک پاکستانیوں کیلئے بھی کچھ کیا؟

جواب: جی بالکل! ایک خاص مدت کے بعد بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو اضافی الاؤنسز ملتے ہیں جن کی تفصیل ایس آر او 666(1)/2006 اور قاعدہ 4 میں درج ہے۔ جو لوگ یہ سامان نہیں لا سکتے ان کو ملنے والی سہولت/ الاؤنسوں کا ناجائز فائدہ دوسرے لوگ اٹھا رہے تھے۔ ہم نے ذاتی/ گھریلو سامان لانے والے ایماندار اور مخلص پاکستانیوں کے لئے ڈور ٹو ڈور سروس رولز متعارف کرانے اور اخراجات کو کم کرنے کیلئے ایک سے زائد مسافروں کیلئے ایک کنٹینر بک کرانے کی تجویز دی۔

ہیکرز بھی کبھی کبھی پروفائل کو ہیک کر لیتے ہیں اور کبھی ٹیکس چور بھی رسائی حاصل کر لیتے ہیں جیسا کہ ایک نجی کمپنی کے مالک نے اپنے ستمبر 2023ء سے جنوری 2024ء تک کے سیلز ٹیکس گوشواروں میں صفر کاروبار ظاہر کیا مگر کسی جعل ساز نے ان کے ٹیکس پروفائل میں غیر قانونی طور پر جعلی ضمیمے اپلوڈ کر کے 81ارب 43 کروڑ روپے کے کاروبار پر 43ارب 69 کروڑ روپے کا اِن پٹ ٹیکس ظاہر کیا۔ ضمیمہ C میں بھاری سپلائیز ظاہر کرنے کے بعد مختلف خریداروں نے اربوں روپے کے اِن پٹ ٹیکس کے دعوے داخل کئے۔

سرکاری محصولات میں اربوں روپے کے نقصان کی تحقیقات کیلئے PRAL،آر ٹی او-1 اور آر ٹی او-11، کراچی، ایل ٹی او لاہور، سی ٹی او لاہور، آر ٹی او لاہور اور آر ٹی او فیصل آباد کی دستاویزات، بینک کھاتوں اور کاروباری معاہدوں کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ کمپیوٹرائزڈ نظام تک براہِ راست یا بالواسطہ رسائی رکھنے والے پرال (PRAL) اور ایف بی آر کے موجودہ اور/ یا سابقہ ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔

اس گروہ نے ابتدائی طور پر سیلز ٹیکس میں غیر فعال رجسٹرڈ افراد کو منتخب کیا ،ان کے پروفائل میں مخصوص مینوفیکچرز کو اِن پٹ ٹیکس کا فائدہ پہنچانے کیلئے جعلی کاروبار ظاہر کیا۔ فاروڈ اوربیک ورڈ ٹرانزیکشن کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے ذریعے اندھیری سرنگ کے آخری کونے میں چھپے ہوئے ٹیکس چوروں تک رسائی ممکن ہے۔ آپ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فارورڈ ٹرانزیکشنز کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ دھوکہ دہی کی شروعات سیلز ٹیکس گوشوارے کے ضمیمہ C سے ہوئی۔ ہمارے فیصلے کے بعد ایف بی آر نے مجرموں تک پہنچنے کیلئے کارروائی شروع کر دی ہے۔

سوال: آپ کے والد استاد تھے، اساتذہ کرام کو بھی ٹیکس میں کوئی معافی ملتی ہے؟

جواب: جز وقتی اساتذہ کیلئے بہت کچھ کیا گیا ہے، انہیں سروس سیکٹر میں شامل کرنے کے بعد چھ لاکھ روپے تک کی چھوٹ سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ان سے 22 فیصد تک ٹیکس لیا جا رہا تھا ہماری سفارشات کے بعد انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 149 کے تحت چھ لاکھ روپے کی چھوٹ مل گئی ہے۔ اکثر اداروں میں ود ہولڈنگ ایجنٹ نے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 149 کی بجائے 153 کے تحت ٹیکس کاٹیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔کیونکہ وہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے دوسرے شیڈول کے حصہ اول کی شق (2) کی تمام شرائط پر پورا اترتے تھے۔

سوال: لوگوں کے اکاؤنٹس سے زبردستی پیسے نکالنے کامعاملہ بھی کافی غور طلب ہے، کیا کہتے ہیں؟

جواب: یہ بالکل درست بات ہے، کئی مرتبہ تو انکم ٹیکس کمشنر یا انکم ٹیکس ٹریبونل کے فیصلوں پر بھی عمل نہیں کیا جاتا اور پیسے نکال لئے جاتے ہیں۔ ایف ٹی او کا ادارہ قانون کے مطابق پیسے واپس کرنے کی سفارش کرتا ہے، جن پر عمل کیا جاتا ہے۔

سوال: امیر لوگ رجوع کرتے ہیں یا غریب بھی آتے ہیں؟

جواب: ہر شعبے کے افرادکیلئے دروازے کھلے ہیں۔ ایک صاحب نے 59 روپے واپس نہ کرنے کی شکایت درج کرائی۔ انہوں نے سال 2020 سے 2022 کیلئے بالترتیب 1357 روپے، 18417 روپے اور 59 روپے کی واپسی کی درخواستیں جمع کرائیں، مگر محکمہ رقم واپس کرنے میں ناکام رہا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 170(4) کے لحاظ سے محکمہ 60 روز کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ یہ معاملہ 30 دنوں میں حل کیا گیا۔کبھی کبھی محکمہ احکامات کی کاپی فراہم کئے بغیر ہی کارروائی شروع کر دیتا ہے۔ یہ بھی خلافِ ضابطہ ہے۔

ایک ٹیکس دہندہ نے لکھا کہ ایف بی آر کے علاقائی دفتر نے یکطرفہ طور پر ایک کیس بنا کر بینک کھاتوں سے 50 لاکھ روپے نکال لئے۔ اپیل دائر کرنے کیلئے حکم کی تصدیق شدہ کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی۔ آرڈر اِن اوریجنل کا حصول ہر ٹیکس دہندہ کا قانونی حق ہے۔ایک کاشت کار کی غیر ملکی ترسیلات پر ٹیکس لگادیا گیا تھا جو کہ غیر قانونی ہوتا ہے۔

ایک ٹیکس دہندہ نے ٹیکس سال 2018 میں 2 کروڑ 35 لاکھ روپے کی ترسیلات اور 62 ہزار 162 ڈالر کا بینک سرٹیفکیٹ پیش کیا تھا۔ 28 ستمبر 2020 کو آڈٹ کیلئے منتخب کرنے کے بعد پونے چار سال تک محکمے نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ شکایت کنندہ کو سنے بغیر فیصلے کئے گئے۔ متعلقہ چیف کمشنر ٹیکس سال 2018 کیلئے 122A کے تحت جاری کردہ حکم پر نظر ثانی کریں اور قانون کے مطابق شکایت کنندہ کو سنوائی کا مناسب موقع فراہم کرنے کے بعد فیصلہ کریں۔

سوال: زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس لگ گیا ہے؟

جواب: زرعی آمدنی پر صوبائی حکومت نے ٹیکس لگایا ہے لیکن ایف بی آر انکم ٹیکس نہیں لے سکتا، یہ غیر قانونی ہے، ایسا ایک معاملہ 7برس سے لٹکا ہوا تھا۔ ڈی جی خان کے رہائشی نے ٹیکس سال 2016 کیلئے زرعی شعبے اور دیگر ذرائع کی آمدنی ظاہر کرتے ہوئے گوشوارے فائل کئے۔ مگر کمشنر انکم ٹیکس نے زرعی ٹیکس کی عدم ادائیگی کے باعث زرعی آمدنی پر بھی انکم ٹیکس لگا دیا۔ اگرچہ زرعی انکم ٹیکس ادا کر دیا گیا تھا لیکن ٹیکس دہندہ کی جانب سے یہ ادائیگی ایف بی آر کے علم میں نہ لانے سے معاملہ الجھ گیا، ہم نے یہ معاملہ 15 دن میں حل کر دیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں