زباں فہمی نمبر 233 , قہوے سے کافی تک

زباں فہمی نمبر 233 قہوے سے کافی تک ۔ سہیل احمد صدیقی۔فوٹو ایکسپریس۔


سہیل احمد صدیقی January 12, 2025
زباں فہمی نمبر 233 قہوے سے کافی تک ۔ سہیل احمد صدیقی۔فوٹو ایکسپریس۔

اگر آ ہی گئے ہو تو چلو آؤ یہاں بیٹھو

ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں

             (منصور آفاق)

کہتے ہیں کہ قہوہ ہی درحقیقت کافی (Coffee) اور شاید چائے کی بنیاد ہے۔ اس باب میں بہت سی جہتیں ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مشترک مشروب یقیناً قہوہ ہی ہے ، خواہ کسی بھی طرح تیار کیا گیا ہو۔ یہ بات اس لیے بتانی ضروری ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے لوگ سبز چائے عُرف Green teaاور گورگِیاہ۔یا۔نیمبو گھاس (Lemon grass) کو بھی قہوہ ہی کہتے ہیں، جبکہ متعدد پھلوں، سبزیوں اور جڑی بوٹیوں سے تیار ہونے والی چائے بھی قہوہ ہی ہے۔ (سبز چائے کو اَب شاید گاؤں دیہات میں بھی انگریزی نام ہی سے پُکارا جاتا ہے، یہی صورت لیمن گراس کی ہے جو ایک خوشبودار،’ دَوائی‘ گھاس ہے)۔

پرانے لوگ اکثر کافی ہی کو قہوہ کہتے تھے ، مگر اَب ہمارے یہاں، بہت کم لوگ کافی کو قہوہ کہنے والے ملیں گے۔ لغوی معانی کی بات کی جائے تو لفظ قہوہ عربی الاصل اسمِ مذکر ہے جس کے معانی المُنجد عربی اردو لغت کی رُو سے یہ ہیں:

’’القہوہ : خالص دودھ ، کامل شِکم سیر ہونا، شراب ، شراب کو اِس لیے قہوہ کہتے ہیں کہ شراب پینے والے کی بھوک کم ہوجاتی ہے۔ مولّدین کے نزدیک ، قہوے کا مشروب ، کبھی قہوہ کا اطلاق بُنّ پر بھی ہوتا ہے، نیز قہوہ کے ہوٹل کو مجازاً قہوہ کہتے ہیں‘‘۔

اردو کی مستند ومعتبر لُغت فرہنگ آصفیہ کے بیان کے مطابق قہوہ سے مُراد ہے’’بُن، کافی، ایک قسم کے تُخم کا نام جسے حبّۃ الخضراء بھی کہتے ہیں ، اسے بھُون کر پِیستے اور پھر پانی میں چائے کی طرح جوش دے کر پیتے ہیں، بھُنے، خواہ کچّے کو بُن اور پِسے ہوئے کو قہوہ کہتے ہیں۔ مزاجاً تیسرے درجے میں حاریابس، اشتہاء کو بڑھاتا، ہاضمے کو قوّت بخشتا اور حواس وجگر وباہ کے واسطے اَزحد مفید ہے۔ جزائر ہِند، عرب وفارس میں پیدا ہوتا ہے۔

تاریخ ہفت اقلیم میں لکھا ہے کہ اس کا ایجاد، شیخ شادبی سے ، جس کا مزار مخہ میں ہے، ہُوا ہے‘‘ ۔ نوراللغات میں یہ بھی لکھا ہے ’’جیسے عرب میں قہوہ پیا جاتا ہے‘‘، گویا یہ بطور ِ روایت عرب کی سرزمین سے منسوب سمجھا جاتا تھا، حالانکہ فاضل مؤلفیَن کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس مشروب کی دریافت اور استعمال سے حبشہ کا نام بھی جُڑا ہوا ہے جسے پہلے Abyssiniaکہا جاتا تھا اور پھر Ethiopiaکا نام دیا گیا۔

لسانی قیاس یہ کہتا ہے کہ اسی ملک کے ایک علاقے (سابق صوبے ) Kaffa(کَفا) یابہ اختلافِ تلفظ Keffa(کیفا) میں اوّل اوّل قہوہ کاشت کیا گیا ، اس کے باشندے Kaffichoکہلاتے ہیں اور مزید حیران کُن انکشاف یہ ہے کہ وہاں مقامی زبان میں اسے قہوہ یا کفا نہیں ، بلکہ بُونو(buno) کہتے ہیں ، جبکہ یہ نام بذاتہ ایک اور لفظ ’بُن‘ بمعنیٰ کچّی کافی سے مشتق ہے، جسے سہواً عربی الاصل قراردیا گیا ، حالانکہ ہندی الاصل ہے (بحوالہ ’لغات ِ کشوری‘ از مولوی تصدق حسین رضوی)۔ یہاں رُک کر ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اگر لفظ کافی ہی پہلے بنا ، کَفا سے تو پھر قہوہ کب اور کیسے عربی میں پیدا ہوا اور دوسری بات یہ ہے کہ کَفا کے لوگ اس مشروب کو بُن کیوں کہتے ہیں۔

یہ لسانی تحقیق یقیناً بہت دل چسپ ہوگی، کیونکہ افریقہ کی بڑی زبانوں سے عربی کا اشتراک صدیوں پرانی بات ہے۔ آنلائن دستیاب مواد سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی کا Coffeeدرحقیقت ولندیزی (Dutch)زبان کے Koffieکی متبدل شکل ہے جو قدیم (عثمانلی) تُرکی لفظ ’کاہ وے‘(Kahve) سے مشتق ہے اور خود تُرکی میں عربی کے قہوہ سے بِگاڑ کر بنایا گیا تھا۔اردو۔ترکی/ترکی اردو لغات مرتبہ ڈاکٹر اے بی اشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان، مطبوعہ انقرہ (ترکی): سن 2022ء کے اندراج کے مطابق یہ لفظ جدید تُرکی میں بھی موجود ہے۔

(اردو کے مختلف علاقائی لہجوں اور برّعظیم پاک وہند کی مختلف زبانوں میں لفظ قہوے کو ’کاوا‘ بولا جانا عام ہے)،Koffieپہلے پہل 1582ء میں انگریزی میں داخل ہواتو Coffee بنا۔ قدیم دور کی تاریخ سے تلاش کیے بغیر جدید دور میں یہ لکھا گیا کہ مکّہ مکرّمہ میں اوّلین قہوہ خانہ 1510ء کے عشرے میں کھُلا۔ ظاہر ہے کہ یہ سن کتابی معلومات کے تبادلے کی ارزانی میں سامنے آیا ، ورنہ کیا اسلامی تاریخ میں ، قرون ِ اولیٰ سے اس کا سراغ ملنا ناممکن ہے؟ راقم کا خیال ہے کہ الف لیلہ ولیلہ جیسی عربی ودیگر زبانوں کے اشتراک سے کئی اقوام کے مختلف قصہ گو اَفراد کی مساعی سے جنم لینے والی طویل داستان میں بھی کہیں ذکر ملتا ہے۔

اس کا ایک حصہ تو عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد ِ خلافت سے منسوب کیا جاتا ہے (خواہ فرضی ہی سہی) جو 763ء میں پیدا ہوا اور  786ء میں برسراِقتدار آیا ۔خلیفہ ہارون کی وفات 809ء میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قہوہ موجود تھا اور قہوہ خانہ بھی ، مگر اہل مغرب نے اس بابت تحقیق کی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ 1530ء کی دہائی میں یہ مشروب تُرکی میں باقاعدہ استعما ل ہونے لگا تھا۔

مزید کھُدیڑ کی گئی تو پتا چلا کہ تُرکی میں پہلے پہل یہ لفظ چاؤ وا (chaoua) تھا جو 1598ء تک مستعمل تھا ، پھر cahveہوا اور بالآخر kahuiبن گیا (چاؤ وا سے دھیان چائے کی طرف چلا جاتا ہے جو خالص چینی لفظ ہے۔ اب اس بابت تحقیق الگ سے کرنی ہوگی) ;مگر ولندیزی کے لفظ کی بنیاد بہرحال یہی ہے۔ فرینچ زبان میں caféسے مُراد یہی قہوہ یا کافی تھا جو مابعدکَفے (یعنی انگریزی کا کیفے) نامی (ہر طرح کے مشروبات سے مخصوص) ریستوران کے لیے استعمال ہونے لگا (اکثر پاکستانی نہیں جانتے کہ کیفے میں فقط مشروبات فراہم کیے جاتے ہیں ، ریستوران میں فقط کھانا اور مشروبات ، جبکہ ہوٹل یا موٹل اصل میں سرائے ہے جہاں ٹھہرنے کا انتظام بھی ہوتا ہے;فرینچ میں غیستو غاں، اوتیل اور موتیل کہتے ہیں) اور جرمن میں اسے Kaffeکہتے ہیں جو لاطینی اور اطالوی کا caffèہے۔ تحقیق مزید سے یہ نکتہ بھی واضح ہوگیا کہ caffè کی جڑ، وہی عربی الاصل قہوہ ہے۔

پیرس (فرانس ) میں مقیم، کافی کے ایک فرینچ تاریخ داں جناب اے دیلِستاں ژاغ داں (Édelestan Jardin)نے 1895ء میں اپنی تحقیقی کتاب ’’لا کافی اے ، اے لو کَفے‘‘ (The coffee tree and Coffee:"Le Caféier et le Café")یعنی کافی کا پودہ اور کافی میں لکھا کہ’’ اس کی وجہ تسمیہ کا طے ہونا محال ہے۔

اُن کے خیال میں، بہرحال عربی لفظ کا کا ہوا (kahua) اور کا ہوئے (kahoueh) بننا قرین ِ قیاس ہے، نیز اِس کے مآخذ میں عربی الاصل کَفا، کہوا۔یا۔قہوہ ہونا اِس بِناء پر صحیح ہے کہ کافی کا پودہ Coffea arabicaسرزمین ِ حبشہ سے تعلق رکھتا ہے ;لفظ کافی سب سے پہلے فارسی طبیب رازی (Rhazes) نے استعمال کیا، یہ پودہ اوّل اوّل یمن میں اُگایا گیا ;قدیم تاریخ سے اس بات کا سراغ ملتا ہے کہ کافی کا باقاعدہ، بھرپور استعمال پہلے پہل جنگل میں پڑاؤ ڈالنے والے درویشوں نے کیا ; قہوے کے بیج بھون کر کافی مشروب تیار کرنے کا سلسلہ ترکی سے شروع ہوا ‘‘۔ یہ ساری تحقیق اسی مشروب کے بیوپار سے منسلک ایک فاضل جناب پیٹر باسکر وِیل نے جمع کی ہے اور www.quora.comپر دستیاب ہے۔

تُرکی کے یورپ سے متصل ہونے کی وجہ سے سولھویں صدی ہی میں قہوہ اُس برّاعظم میں متعارف ہوا اور 1650ء کے لگ بھگ انگلستان بھی جاپہنچا۔1675ء میں یہ مشروب انگلستان میں اس قدر مقبول ہوچکا تھا کہ مُلک بھر میں تین ہزار سے زائد قہوہ خانے کھُل چکے تھے اور اس نے بڑی حد تک بیئر(beer) شراب کی جگہ لے لی تھی ، جس کا استعمال ناشتے میں کیا جاتا تھا ، لیکن چائے جیسے نسبتاً سستے مشروب کے عام ہونے کے سبب، اَٹھارویں صدی تک اس مشروب کی مقبولیت میں کمی آگئی۔ اس کے برعکس امریکی مقبوضہ جات میں چائے پر عائد ہونے والے ٹیکس کی وجہ سے کافی کی مقبولیت برقراررہی۔ مابعد قہوے یا کافی کی مقبولیت مختلف جہات میں بڑھتی گئی اور اُنیسویں صدی کے وسط تک ’کافی کیک‘ بھی تیار ہونے لگے تھے۔ اُس وقت تک کافی سے متعلق اکثر الفاظ انگریزی میں جگہ بناچکے تھے۔

ٓحبشہ، عرب (بشمول یمن )، مصر ، ترکی، وسط ِ ایشیا، ایران، افغانستان، چین، جاپان ومتعلق ممالک اور برّعظیم پاک وہند میں کافی عُرف قہوہ اور دیگر اقسام کے قہوے بنانے اور پیش کرنے کا اپنے اپنے طور طریقے رائج ہیں، مگر بعض مقامات کی اپنی پہچان ہے۔ تُرکی میں تازہ قہوے کے بیج بھُوننے کے بعد پِیس کر قہوہ بناتے ہیں تو ہر فرد کے لیے الگ الگ (اور عموماً) پِیتل کے قہوہ دان میں قہوہ یعنی کافی پیش کی جاتی ہے۔

ان کے یہاں گرم ریت یا کوئلے کی آگ پر تیار ہونے والے قہوے کا جھاگ پہلے پیالی میں ڈالنے کے بعد مزید اُبال آنے پر، باقی قہوہ پیالی میں اُنڈیلا جاتا ہے۔ تُرکوں میں خوشی اور غم کے ہر موقع پر، دوستوں اور مہمانوں کی تواضع قہوے اور تُرک مٹھائی، چاکلیٹ، میٹھے بسکٹ یا فقط سادہ پانی کے ساتھ کی جاتی ہے۔

تُرکی اور وسط ِ ایشیا کی تُرک نژاد اقوام کے یہاں یہ روا ج ہے کہ جس طرح پانی کا گلاس مہمان کے سامنے خالی رکھا ہو اور وہ جب تک اُسے اُلٹانہ دے تو پانی یا مشروب اُس میں باربار ڈالتے رہتے ہیں، اسی طرح قہوہ پینے کا اصول ہے۔ مہمان قہوے سے لطف اندوز ہونے کے بعد، پیالی کے اوپر تشتری (ط سے غلط) اُلٹادی جاتی ہے۔ایک اور عجیب اور دل چسپ رسم یا رواج یہ ہے کہ پیالی ٹھنڈی ہونے کے بعد قہوے کی باقیات میں قدرتی طور پر بننے والی شکلیں دیکھ کر قسمت کا حال بتایا جاتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’پیالی میں طوفان‘‘(Storm in a teacup) اُٹھانے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے۔ بات کی بات ہے کہ اس ’پیالی میں طوفان‘ (یعنی کسی غیراَہم معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اُس کی بابت فضول گفتگو) کے لیے امریکی انگریزی میں کہتے ہیں:

[A tempest in a teapot]

کشمیری زبان میں کا ہوا کا مطلب ہے ’میٹھی چائے‘ اور یہ اصطلاح یا نام اس زبان میں سبزچائے سے بنے ہوئے قہوے کے لیے استعمال ہوتاہے۔

قہوہ کہہ کر کافی مراد لی جائے تو کچھ اور الفاظ بھی اسی سے منسلک سامنے آتے ہیں:

قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ

جانے کس دُھن میں سُلگتے ہیں بُجھائے ہوئے لوگ

                      (عباس تابش)

’’قہوہ خانہ: اردو اِسم مذکر یعنی وہ مکان جہاں تمام قہوہ باز جمع ہوکر قہوہ پیتے اور گپ شپ اُڑاتے ہیں، اس کا دستور عرب ، بمبئی اور کلکتہ میں ہے۔ ہندوستان میں اس کی بجائے شراب خانہ ، بھنگیڑ خانہ ،تاڑی خانہ ، چنڈوخانہ وغیرہ سمجھنا چاہیے‘‘۔ فرہنگ ِ آصفیہ کی اس عبارت میں کئی لسانی انکشافات پنہاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ لفظ مرکب شکل میں اُردو ہی کی دین ہے ، دوسری بات ’قہوہ باز‘ کی ترکیب بہت موزوں ہے ، مگر آج کل سننے پڑھنے میں نہیں آتی، تیسری بات یہ کہ انگریزی لفظ Coffeehouseکا بالکل صحیح متبادل ومترادف ہے، چوتھی بات یہ ہے کہ انگریزی لفظ gupکو فرہنگ ِ آصفیہ کی اوّلین اشاعت کے وقت تک اردو میں رواج مل چکا تھا اور اہلِ زبان اس سے ترکیب گپ شپ بھی بناچکے تھے، یہ کوئی سَوا سو سال سے زیادہ پرانی بات ہے۔

پانچواں اور شاید سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اُس دور میں قہوہ خانہ عام نہیں تھا ، محض چند مقامات تک محدود تھا اور دیگر خُرافات عام ہوچکی تھیں۔ ایک اور مرکب لفظ ہمارے یہاں اب سننے پڑھنے میں نہیں آتا : قہوہ دان۔ بقول ِصاحبِ نوراللغات یہ فارسی الاصل اسم مذکر ہے اور قہوہ رکھنے کے ظرف یعنی برتن کو کہتے ہیں۔ اب تو ہم فرنگی زبان کی اصطلاحات وتراکیب کے عادی ہیں ، سو اِسے بھی coffee potکہیں گے۔

ایران، آذربائیجان اور بعض دیگر ممالک میں محبت کرنے والے جوڑوں ، اُن کے مدّاحوں، گلوکاروں، مُوسیقاروں، نیز عام مسافروں کے لیے ’قہوہ خانہ عاشقاں‘ یا ’قہوہ خانہ عاشق لار‘ (آذری زبان میں) کی موجودگی بہت پُرکشش ہوا کرتی تھی ، اب بھی یہ روایت کہیں کہیں باقی ہے۔

{لفظ ’ قحبہ خانہ‘ اسی قہوہ خانہ کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ، بلکہ یہ قحبہ یعنی فاحشہ یا طوائف سے منسوب جگہ کو کہتے ہیں۔ ’لغات ِ کشوری‘ کی عبارت نقل کرتا ہوں:’’قحبہ: عربی ، عورت بدکار اور فاحشہ۔ یہ مُشتَق ہے قحاب بمعنیٰ کھانسی سے ، چونکہ عرب کی بدکار عورتیں ، مردوں کو کھنکھارکر بُلاتی ہیں، اس لیے یہ نام رکھا گیا ‘‘۔ صاحب ِ لغات نے قدیم دور کی بات یوں لکھی جیسے اُن کے عہدمیں بھی یہ رِواج جاری ہو}۔

قہوے کے فوائد

کافی کی ایک پیالی میں کیفِین (Caffeine) کی موجودگی سے جسم کا تحوّل (metabolism) بڑھ سکتا ہے جو چربی گھٹانے یعنی مُٹاپا کم کرنے کے کام آتا ہے۔ اسی بِناء پر اِس کا استعمال بہت سے لوگ نہارمنھ کرتے ہیں کہ وزن کم ہوگا۔ اس ضمن میں بغیر چِینی کی کافی زیادہ مفید ہے، مگر یہاں ایک رَدّ ِتحقیق (Counter-research) بھی پیشِ نظر رہے ;ہر طرح کے مردوزَن (خصوصاً صنفِ نازک ) کو ایسا کرنے اور معمول (Routine)بنانے میں احتیاط اور پیشگی معلومات کا حصول لازم ہے۔

اس کے مُضِرّ اثرات بھی مرتَب ہوتے ہیں ; بغیر چِینی کی کافی یا بغیر دودھ چِینی کی کافی [Black-coffee]کا مسلسل استعمال، مزاج میں گرمی، تیزی اور غصّے کا باعث ہوتا ہے۔ راقم نے اپنی تدریسی ملازمت میں ایک بظاہر صحت مند، دراز قد اور قدرے پُرکشش (اَدھیڑعُمر) خاتون کو اِس بیان کا بعینہٖ عملی نمونہ پایا۔ وہ ناشتا کیے بغیر اِسکول تشریف لاتیں، تقریباً ڈیڑھ پاؤ کا مَگ بھر کر ایسی ہی کافی پیتیں اور پھر پورا دن، اُن کی ناک پر غصہ دھرارہتا ; نجی زندگی کے واقعات سُناتیں ، اُن میں بھی گرم مزاجی کا عنصر غالب ہوتا تھا۔

کافی کے علاوہ قہوہ کہلانے والے مشروبات میں سرِفہرست نام سبزچائے کا ہے۔ سبز چائے میں caffeine اور catechinنامیflavonoid پایا جاتا ہے جو مانعِ تکسید (antioxidant) ہوتا ہے۔یہ دونوں مرکبات مل کر metabolismتیز کردیتے ہیں; Catechin اضافی چربی گھٹانے اور caffeineکے ساتھ مل کر توانائی بڑھانے کا کا م کرتا ہے۔ سبز چائے میں لیموں اور شہد ملا کرلیے جائیں تو نزلے کے اثرات کا فوری سدّباب ہوتاہے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر پختون /پشتون حضرات سردیوں میں گورگِیاہ (Lemon grass) کا قہوہ پیتے ہیں، جبکہ بعض تو ساراسال یہی قہوہ پیتے ہیں اور اِن کی دیکھا دیکھی دوسری قوم کے لوگ (خصوصاً مزدور طبقہ) یہی قہوہ پیتا دِکھائی دیتا ہے۔

خاصیت میں یہ شاید سب سے زیادہ گرم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کے قہووں /چائے میں دار چینی کا قہوہ، لیموں اور شہد کا قہوہ، گیندے کے خاندان سے متعلق پھول، کیمومائل (Chamomile flowers) سے بنا قہوہ، سونف سے بنا قہوہ، ہلدی اور ادرک سے بنا قہوہ، پودینے سے بنا قہوہ، تُلسی کے پتوںسے بنا قہوہ ( Basil Tea) اور گُڑھل [Hibiscus/Shoe-flower/China Rose] کے پھول کا قہوہ شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں