سفاک اسرائیل کے جنگی جرائم

غزہ مکمل تباہی کے دھانے پر ہے جہاں موجودہ ہولناک صورتحال کے فوری خاتمے کا امکان دکھائی نہیں دیتا


ایڈیٹوریل January 13, 2025

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی طیاروں سے ممنوعہ ہتھیاروں کی بمباری سے 7,820 لاشیں بخارات میں تبدیل ہوگئیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا بعض حملوں میں دھماکے کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سے زیادہ تھا۔

دوسری جانب ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی اصل تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ ہے۔ تحقیق میں جنگ کے پہلے 9 ماہ میں اموات کی تعداد کا بہترین تخمینہ بھی 64,260 لگایا گیا ہے۔ غزہ میں ہر 35 افراد میں سے ایک فرد شہید ہو چکا ہے۔

غزہ مکمل تباہی کے دھانے پر ہے جہاں موجودہ ہولناک صورتحال کے فوری خاتمے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل سفاک اور بے رحم ریاست ثابت ہوئی ہے، ممنوعہ ہتھیاروں کی بمباری سے فلسطینیوں کی لاشوں کا بخارات میں تبدیل ہونا، سفاکیت کی انتہا ہے۔ دھماکوں، میزائل حملوں کا شور، زخموں سے چور درد سے کراہتے بچے، خواتین، مرد، ملبے میں دبے افراد کی آہ و بکا، بچوں کے بے جان جسم اٹھائے آہ و بکا کرتے بے بس ماں باپ، والدین کی لاشوں کو دیکھ کر غم سے چیختے بچے، ہر طرف خون ہی خون، بکھرے ہوئے جسمانی اعضاء موت کا سایہ، یہ سب منظر نامہ کوئی بھیانک خواب نہیں بلکہ اسی دنیا میں یہ ان دنوں فلسطین میں بیت رہی ایک حقیقت ہے۔

یہ عالم انسانیت کا بھی امتحان ہے اور دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ کچھ عرصہ قبل ہیومن رائٹس واچ نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات ’’ جنگی جرائم‘‘ اور ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کی شکل میں آتے ہیں۔ اس کے بعد بینجمن نیتن یاہو اور یو آو گالانٹ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، ان تمام فیصلوں نے گزشتہ سال کے آخر میں غزہ میں اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا ہے۔

یہ فیصلے عالمی کمیشن آف جورسٹس اور اقوام متحدہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کی مذمت کرتے ہیں، اب عالمی عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل اور اس کے سربراہ قانونی اور اخلاقی طور پر بغاوت کے مرتکب ہیں تاہم ان فیصلوں اور شدید الفاظ میں کی جانے والی مذمتوں کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔امریکا مسلسل اسرائیل کا دفاع کرتا رہتا ہے اور اس کی حمایت میں مسلسل اسلحہ فراہم کرتا ہے۔

 اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اتفاق رائے بن رہا ہے۔ برطانیہ نے اپنی اسلحہ برآمدات کا ایک چھوٹا حصہ معطل کر دیا ہے لیکن پھر بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’’مضبوط اتحادی‘‘ کے طور پر جاری رکھنے کی بات کرتا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ فرانس نے ایک قانونی تشریح پیش کی ہے جس میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کو اس لیے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ اسرائیل ICC کا رکن نہیں ہے حالانکہ اس تشریح کا اطلاق عمر البشیر جیسے افراد پر بھی ہوتا ہے۔

دوسری طرف، غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے حوالے سے مزید شواہد سامنے آ رہے ہیں جو نہ صرف قانون کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حملہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ایئر وارز (تنظیم) جو شہری ہلاکتوں کی نگرانی کرتی ہے، نے کہا کہ ’’تقریباً ہر پیمانے پر غزہ میں اسرائیلی مہم میں شہریوں کو پہنچنے والا نقصان کا21ویں صدی کی کسی بھی فضائی کارروائی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

تحقیق کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے اعترافات اور بیانات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں یہ بیان کیا گیا کہ غزہ میں بچوں سمیت عام شہریوں کو جنگجو سمجھا جا رہا ہے، اسرائیلی اخبار ہارٹز میں ایسے فوجیوں کے بیانات شایع ہوئے جنھوں نے غزہ میں اپنی خدمات انجام دیں اور کہا کہ شہریوں، یہاں تک کہ بچوں کو، جنگجو تصور کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں کے یہ بیانات صرف قانونی اور فوجی طریقوں کی وضاحت نہیں کرتے بلکہ قتل، بھوک، جسمانی تشدد، تشویش اور ذہنی اذیت کو بھی بیان کرتے ہیں جسے سمجھنا بھی مشکل ہے۔ ان تحقیقات میں ایک قتل عام کا منظر ہے جو صاف نظر آ رہا ہے، لائیو اسٹریم اور فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کے ذریعے پوسٹ کیا جا رہا ہے، باہر کے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیلی خود بھی اسے بیان کر رہے ہیں۔

اس شدید اور غیر متنازع شواہد کے باوجود کچھ نہیں بدل رہا اور جنگ جاری ہے، وہ چیزیں جو پہلے بریک تھرو کے طور پر سامنے آئیں، جیسے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی پہلی سماعت، اب صرف مشاہدے کی مشقیں نظر آ رہی ہیں، یہ ایک ایسی حالت ہے جو انتہائی مایوس کن ہے، اور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کوئی بھی فریق، چاہے وہ کتنے ہی سنگین جرم کیوں نہ کرے، اسے روکا نہیں جائے گا یا انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔

اسرائیل کے اتحادی نسل کشی اور نسلی صفائی کی اصطلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے اور ان پر عمل کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے، دنیا کو ایک ایسا زاویہ دینے پر مجبور کررہے ہیں جس کے بعد صرف یہ تسلیم کیا جائے گا کہ حقوق انسانیت سے نہیں، بلکہ وہ قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں کہ کون انسان ہے، اسی لیے اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا ضروری ہے، چاہے وہ محض رپورٹنگ اور نوٹس لینے کی حد تک محدود ہو جائے۔ یورپ اور امریکا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جو بھی بیانات دیے جائیں یہ رپورٹس اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ ایک جرم ہو رہا ہے، غزہ میں لوگوں کے حقوق زمین پر مٹ چکے ہیں، لیکن جب یہ جنگ ختم ہو گی، تو یہ اکاؤنٹس تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوششوں کو روکے یا کم از کم کمزور کریں گے اور ان مظالم کا انکار نہیں کرنے دیں گے۔

مغربی میڈیا فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا کیونکہ اسرائیل میڈیا کے تمام بڑے ہاؤسز کو استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل اور یہودی دُنیا بھر میں ’’ ڈبل ایم‘‘ یعنی میڈیا اور پیسہ (media and money) کو کنٹرول کرنے میں بہت آگے ہیں، چنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لیے اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے۔

انھوں نے فلسطینی خاندانوں کی تصاویر لے کر مغربی میڈیا میں اسرائیلی خاندانوں کی تصاویر کے طور پر پیش کیں جنھیں فلسطینیوں کے راکٹوں کا نشانہ بتایا گیا، وہ حقائق کو تبدیل کر کے عالمی برادری کو قائل کرنا چاہ رہے ہیں کہ اصل مظلوم وہ ہیں اور عالمی برادری مان لیتی ہے کیونکہ میڈیا اُن کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا، اسرائیل کے اوپر دباؤ ڈال سکتا ہے اور اس کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ کرے۔ بدقسمتی سے مسلم اُمہ، مسلم ممالک اور عرب لیگ اپنے اندرونی مسائل سے دو چار ہیں اور وہ ان سے نکلنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔

دنیا بھر میں اسرائیل کے حالیہ مظالم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ہر طرف سے فری فلسطین اور فلسطین ’’ ول بی فری‘‘ کے نعروں کی گونج آ رہی ہے۔ انسانی حقوق کے تمام اداروں بشمول اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں جیسے کہ عالمی ادارہ برائے صحت کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اسرائیل حماس کے حملے کی آڑ میں اپنے معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی بربریت کی انتہا ہے کہ غزہ میں شہری آبادی والے علاقوں، اسکولوں، مساجد، تعمیرات، پانی کے ذخائر حتیٰ کہ اسپتالوں کے اوپر حملے کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہے۔

فلسطین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے اعلان کیا کہ توانائی کے وسائل کی کمی کے باعث غزہ کی پٹی میں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ مواصلاتی خدمات مکمل طور پر منقطع ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثر و رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔

 فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے امکان کو کمزور کیا گیا تو اس کے منفی اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دیگر دنیا پر بھی مرتب ہوں گے۔ خطے کا پر امن اور محفوظ مستقبل عالمی برادری اور خاص طور پر خطے سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ موثر سفارت کاری کے لیے حالات پیدا کریں۔ غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، علاقے میں انسانی امداد کی محفوظ طور سے فراہمی اور فلسطینیوں کی طویل مدتی سلامتی و تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں