کرپشن ہمارے معاشرے کاوہ مرض ہے جو ہماری رگ رگ میںرس بس چکا ہے اورجسے ختم کرنے کاعزم اورارادہ توہمارے سارے حکمراں ظاہر کرتے ہیں لیکن اسے ختم کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔یہاں جسے موقعہ نہیں ملتا وہ خود کو نیک اور پارسا کہتا پھرتاہے اورجسے موقعہ مل جاتا ہے وہ اسے مال غنیمت سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹتاہے۔سرکاری محکموں میں تو چھوٹے سے لے کر بڑا عہدیدارہر کوئی اسے اپنا حق سمجھتاہے،اگر کسی حکمراں نے اسے ختم کرنے کو کوشش کی تو اسے ہی ختم کردیا جاتاہے۔
پاکستان اسٹیل ملز ہماری اس کرپشن کی وجہ سے آج تباہی کی تصویر بنی ہوئی ہے، جسے وہاں کے ہرشخص نے لوٹا۔بھٹو دور میں بننے والی ملک کی سب سے بڑی اسٹیل ملز کی موجودہ حالت کو دیکھ کر آج ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ترقی کرکے ہمارے لیے ایک شاندار ادارے کی شکل اختیار کرتااوراس جیسی اورملیں ہمارے یہاں بنائی جاتیں مگریہ خود عبرت کا نشان بن گئی۔سرکار ی ادارے کے طور پرمعرض وجود میں آنے والی اس اسٹیل مل کو یہاں پرکام کرنے والے ہرشخص نے برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔یہ وہ ادارہ تھا جہاں پرملازمت حاصل کرنے کی لوگ تمنا کیا کرتے تھے۔ یہاںاچھی اوربھاری تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات بے شمار تھیں۔بونس ، چھٹیاں اورمیڈیکل کے علاوہ قرض اورلون کی سہولت ہرملازم کو حاصل تھی۔نائب قاصد سے لے کر چیئرمین بھی ان سہولتوں سے سرفراز ہوا کرتے تھے۔
دو ڈھائی ہزار ملازمین کے پک اینڈ ڈراپ کے لیے سیکڑوں بسوں پرمشتمل ایک بہت بڑا فلیٹ تھا ۔ کراچی کی سڑکوں پریہ بسیں روزانہ دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔یہاں کی مزدور یونین نے بھی حقوق کے نام پراسے تباہ کرنے میں اپنا کردار خوب نبھایا۔مزدوروں کو گھر کے سامان تعیش کے لیے تمام سہولتیں میسر تھیں۔اس زمانے میں ٹی وی اورفرج کسی کسی گھر میں ہواکرتا تھا ۔ اسٹیل مل کے تمام کارکنوں کو یہ بلاسود آسان قسطوں میں دیا گیا۔ یونین کے تمام افراد کام کرنے سے مستثنیٰ قرار دیے جاتے تھے۔اُن کی دیکھادیکھی دوسرے ملازم بھی کام چوری کرنے لگے ۔صحت کی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا کرپرائیویٹ اسپتالوں نے بھی اس ادارے کو خوب لوٹا۔شہرکے ہر محلے اورعلاقے میں ڈاکٹروں نے بھی اپنے کلینک کو اسٹیل مل کے پینل پرڈال کر بھاری بھاری بلز بنائے۔
ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی اس لوٹ مار میں مل کے کارکنوں کا تعاون بھی شامل تھا۔جھوٹے جھوٹے بل بناکراسپتالوں اورڈاکٹروں نے خوب مال کمایا۔ کارکنوں اورملازمین نے جنھیں میڈیکل کی یہ سہولت اپنے اوراپنے گھر والوں کے لیے تھی لیکن انھوں نے اپنے خاندان والوں کو بھی اس سہولت کے دائرے میں خفیہ طور پرشامل کرلیا۔ خاندان کے کسی فرد کا کوئی آپریشن ہوناہو اسے اپنی ماں یاباپ یابیوی ظاہرکرکے علاج کروالیاگیا۔ ان سب بے اعمالی کا نتیجہ کیا نکلا کہ آج یہ من وسلوی ٰ اُن سے چھین لیاگیا۔اوراسٹیل مل تباہی وبربادی کی نشانی بن کراس حال میں پہنچ گئی کہ آج اُسے خریدنے والا بھی کوئی نہیں۔ قومی بجٹ پریہ ایک بوجھ بن کرہمارے ٹیکس پیئرز کا پیسہ کھارہی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے یہ مکمل طور پربند پڑی ہوئی ہے۔یہاں کوئی بھی کام نہیں ہورہا، مگر تنخواہیں برابر دی جارہی ہیں۔ ہرماہ نہیں تو ہرچھ ماہ میں یہ اداکردی جاتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے کئی بار اس سے جان چھڑانی چاہی تو پیپلزپارٹی سیاسی طور پر مزدوروں کی حامی اوردوست بن کر یہ کام کرنے نہیں دیتی۔پرویز مشرف نے ایک بار اسے فروخت کرنے کی کوشش بھی کی تو ہماری عدلیہ نے یہ سودا منسوخ کروادیا۔ وہ دن ہے اورآج کادن یہ مل نہ چل رہی ہے اورنہ کمارہی ہے۔
اس کی مشینوں کو اب زنگ بھی لگ چکاہے اورکوئی خریدار اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔سندھ حکومت نہ خود اسے چلانا چاہتی ہے نہ اسے فروخت کرنے دیتی ہے کیونکہ وہ جس زمین پرقائم ہے وہ سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔اسٹیل مل کیونکہ وفاق کاادارہ تھی اورہے بھی لہٰذا اس کے ملازمین کی تنخواہیں وفاق کی ذمے داری ہے۔
سندھ حکومت کادعویٰ زمین کی ملکیت تک ہی ہے ، اس کے اخراجات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ آئی ایم ایف ویسے تو ہمارے ہرمعاملے پرنظر رکھے ہوئے ہے لیکن وہ خسارے میں چلنے والی اس اسٹیل مل پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ وہ جانتا ہے کہ جب تک اس ملک میں خسارے والے ادارے موجود رہیں گے پاکستانی قوم اُن کی محتاج رہے گی۔ہماری ترقی وخوشحالی کا ایک منصوبہ بھی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔سی پیک منصوبے سے وہ کس قدر خائف ہے ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر اسٹیل ملزدس برس سے مکمل بند پڑی ہے اورہمارے قومی بجٹ پربوجھ بنی ہوئی ہے لیکن اس پر اسے کوئی اعتراض نہیں۔اسٹیل مل کے سارے ملازمین آج یہاں کام تو نہیں کررہے لیکن گھر بیٹھے تنخواہیں ضرور لے رہے ہیںوہ یاتو ریٹائرڈ ہوچکے ہیں یاپھر کہیں اور نوکری کررہے ہیں۔
اس ملک کا ایک بہت بڑاادارہ کرپشن کی نذر ہوچکااورکرپشن کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن تک نہیں لیا گیا ۔ہماری اسی کمزوری نے کرپشن کے مرض کا خاتمہ تو کیاکیابلکہ اسے مزید پروان چڑھنے میں مدد ضرورکی۔ہم کرپشن کے خلاف بیانات تو بہت دیاکرتے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔آج تک کسی ایک ملزم یامجرم کو اس جرم میں کوئی سزا سنائی نہیں گئی ۔ دس دس سالوں تک قید میںضرور رکھاگیا مگر بعد ازاں باعزت طور پربری بھی کردیا گیا۔بعض افراد تو ترک وطن کرکے دوسرے ممالک میں جابسے اوربعض کو معمولی سا تاوان وصول کرکے بری کردیا گیا۔
کرپشن اربوں روپوں کی اورتاوان چند لاکھ ، یہ ہمارا طرز احتساب ہے ۔اسی وجہ سے یہاں کرپشن کبھی بھی ختم نہیں ہوپائی بلکہ کرپشن کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہی ہوئی ہے۔ہماری اس کمزوری سے ہمارے بہت سے لوگ کرپشن کرکے اتنے مالدار بن چکے ہیں اوراب انھیں ہاتھ لگانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ کرپشن کے اس پیسے سے ان لوگوں نے سب کے منہ بندکردیے ہیں۔کسی کی مجال نہیں کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کرسکے۔کسی نے درست کہا ہے کہ موقعہ لگے تو اتناکمالوکہ پھر اسی کمائی سے اپنے خلاف کوئی فیصلہ ہونے نہ دو۔آج ہمارے ارد گردایسے کئی لوگ گھوم پھر رہے ہیں جنھوں نے اتنی کرپشن کی کہ اربوں اورکھربوں کے مالک بن گئے اوراپنی اگلی سات نسلوں کے لیے مال جمع کرلیا ۔
وہ آج اس قدر مضبوط اور طاقتور ہوچکے ہیں اوراعلیٰ عہدوں پرفائز ہوچکے ہیں،وہ سب کچھ کرکے بھی آج معصوم اوربے گناہ قرار دیے جا چکے ہیں۔کرپشن کا یہ ناسور کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ہمارا ہرلیڈر سیاست چمکانے کے لیے اس کے خلاف نعرے تو ضرور بلند کرتا ہے مگرجب اقتدار میں آجاتا ہے تو وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ دوسروں کو چور اورڈاکوکہنے والوں نے بھی اسی بہتی گنگا میں خوب اشنان کیا۔ہمیں پورا یقین ہے کہ انھیں جب بھی دوبارہ موقعہ ملے گا وہ اپنا چھوڑا ہواکام پھر وہیں سے شروع کرینگے جہاں سے چھوڑا ہے۔