موجودہ ملکی معاشی صورتحال اور حکومتی اقدامات کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات، اکیڈیمیا اور انڈسٹری کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان
(ڈین فیکلٹی آف کامرس، جامعہ پنجاب )
ملک میں اس وقت سٹرکچرل ریفارمز کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بیوروکریسی پالیسیاں بناتی ہے جن سے تبدیلی نہیں آتی ، اگر اکیڈیمیا، انڈسٹری اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پالیسی سازی کی جائے تو بہت فائدہ ہوگا، اس طرح عملدرآمد میں بھی آسانی ہوگی لیکن اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ترقی کا سفر مزید طویل ہو جائے گا۔
موجودہ ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا جائے اس وقت اشاریے مثبت ہیں۔ سیاسی و معاشی استحکام اور جیوپولیٹیکل صورتحال قدرے بہتر ہو رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی مہنگائی اب قابو میں ہے۔ ڈالر میں اضافہ بھی رک گیا ہے، سٹاک مارکیٹ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے جو معاشی حوالے سے مثبت ہے، اس سب کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ابھی عام آدمی کی زندگی میں فرق نہیں آیا، مہنگائی رک گئی ہے، اس میں کمی نہیں آئی نہ ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں کم ہوئی۔ عام آدمی کو ریلیف اس وقت محسوس ہوگا جب اس کی قوت خرید میں اضافہ ہو، مہنگائی کم ہو اور اس کی زندگی میں بہتری آئے۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ کاروبار میں حکومت کی ضرورت سے زیادہ مداخلت ہے۔ 20 سے زائدایسے محکمے ہیں جنہوں نے بزنس کمیونٹی کیلئے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں، ہماری ساری انڈسٹری ٹریڈنگ پر چلی گئی، ڈالر میں اضافہ کے بعد امپورٹ بند ہوئی تو یہاں کچھ ہلچل شروع ہوئی۔ حکومت کوکاروبار کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ اڑان پاکستان اچھا برانڈ نیم ہے۔یہ 13واں پانچ سالہ پلان ہے۔ اس میں 5E's رکھے گئے ہیں جن میں اکانومی، ایکسپورٹ، انوائرمنٹ و دیگر شامل ہیں۔
اڑان پاکستان میں بڑے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، پاکستان کی آزادی کے100 برس مکمل ہونے پر 3ٹریلین کی معیشت بنانے کا ہدف ہے، سوال ہے کہ یہ سب حاصل کیسے ہوگا؟اس حوالے سے کوئی روڈ میپ نہیں دیا گیا، ایز آف ڈوئنگ بزنس کیلئے کچھ نہیں کیا گیا،اگر واقعی ملکی معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو حکومت کو کم سے کم حکومت بننا ہوگا، کاروبار پر بے جا دباؤ ختم کرنا اور بزنس کنٹرول سے نکلنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے ایکسپورٹ کو 60 بلین تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، امریکا ہم پر پابندیاں لگا رہا ہے، جی ایس پی پلس کے ساتھ مختلف معاملات کو جوڑا جا رہا ہے، ایسے میں یہ ہدف کیسے پورا ہوگا؟یقینا حکومت بھی ان عوامل پر نظر رکھے ہوئے ہوگی تو پھر کونسی مارکیٹ ہے جہاں ایکسپورٹ کی جائے گی؟ کیا وسطی ایشیاء ہماری مارکیٹ ہوگا؟ اس وقت تعلیمی اداروں کا ایک اہم کردار بنتا ہے کہ وہ تحقیق کریں اور حکومت کی رہنمائی کریں کہ کہاں مواقع ہیں اور انہیں کس طرح حاصل کرنا ہے۔ ہمارے پاس بہترین محقق اور ماہرین ہیں لیکن بدقسمتی سے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔ ریسرچ صرف لائبریری تک رہ جاتی ہے جبکہ پالیسیاں بیوروکریسی بناتی ہے۔
بیوروکریسی کی بند کمروں میں بنائی گئی پالیسیوں سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے، معاشی استحکام اور اڑان پاکستان جیسے منصوبوں کی کامیابی کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی، اس میں تمام سیاسی جماعتوں، بزنس کمیونٹی، اکیڈیمیا و دیگر طبقات کو شامل کرنا ہوگا۔ اڑان پاکستان منصوبے میں اوورسیز پاکستانیوں کا ذکر ہی نہیں جو باہر سے کما کر پیسہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ ہمیں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے اوورسیز پاکستانیوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ سب محب وطن ہیں اور ملک کا ہی سوچتے ہیں لہٰذا ملکی بقاء کی خاطر تینوں بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھیں اور اتفاق رائے سے ملک کو مسائل سے نکالنے کا لائحہ عمل تیار کریں۔
محمد ندیم قریشی
(سابق ریجنل چیئرمین ، ایف پی سی سی آئی )
ملک میں میثاق جمہوریت پر پہلے بھی کام ہوا، اب بھی ہو رہا ہے لیکن آج تک میثاق معیشت پر کام نہیں ہوا۔جب میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کا ریجنل چیئرمین تھا تو اس وقت ہم نے ایف پی سی سی آئی میں سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں میثاق معیشت پر رضامند کیا جاسکے مگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس میں پیشرفت نہ ہوسکی۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ جب تک ملک میں میثاق معیشت نہیں ہوگا تب تک نہ تو معاشی استحکام آسکتا ہے اور نہ ہی اڑان پاکستان جیسے منصوبے خاطر خواہ نتائج دے سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم منصوبہ نہیں بلکہ خواہشات کی فہرست بناتے ہیں۔ اس میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی جاتی، ایف پی سی سی آئی اور بزنس چیمبرز کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا جس کے باعث موثر پالیسی نہیں بنتی، اس پر عملدرآمد کا لائحہ نہیں بنایا جاتا اور پھر اہداف حاصل نہیں ہوتے لہٰذا اگر حکومت ترقی کے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے بیوروکریسی کے بجائے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا ہوگی۔
سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی وجہ اس کے ماڈل میں تبدیلی ہے، بنکوں نے ’میوچل فنڈز‘ بنا دیے ہیں جس کے بعد ان کے اربوں روپے سٹاک ایکسچینج میں موجود ہیں، ریئل اسٹیٹ سے بھی پیسہ میوچل فنڈز میں چلا گیا لہٰذا جب دوسری کاروباری سرگرمیاں شروع ہوں گی تو یہ پیسہ وہاں چلا جائے گا اور سٹاک مارکیٹ میں بڑی تبدیلی ہوگی۔ ہماری آبادی کا 65فیصد سے زائد نوجوان ہیں، ان پر خرچ کرنا ہوگا، انہیں آئی ٹی اور انٹرپرینیورشپ کی تربیت دے کر اڑان پاکستان کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ زراعت پر ہماری توجہ نہیں ہے۔ حکومت کسانوں کو سبسڈی دینے کی باتیں کرتی ہے۔
ان کو بھکاری نہ بنائیں بلکہ تمام ٹیوب ویلز سولر پر منتقل کر دیں، کسان کو اچھا اور معیاری بیج فراہم کریں، زراعت میں ریسرچ پر توجہ دیں۔ پام آئل کی امپورٹ 6 ارب ڈالر کے قریب ہے، کیا پاکستان میں اس پر کام نہیں کیا جاسکتا۔
گندم کے موسم میں ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کاشت ہوتی ہے، اگر25 لاکھ ایکڑ پر سورج مکھی اور سرسوں کاشت کر دی جائے تو ہماری امپورٹ کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک صرف شعبہ زراعت سے ہی اڑان پاکستان کے معاشی اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اس پر کام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ بزنس کمیونٹی کو بے جا سختی سے آزاد کرنا ہوگا۔ لانگ ٹرم پالیسی بنا کر کاروبار کو ٹینش فری کر دیں ، تین سال کیلئے آزادی دے دیں تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات )
ودہولڈنگ ٹیکس سے ملک چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رٹیل پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا بلکہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔ تنخواہ دار کا انکم ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ بڑے ٹیکس چوروں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا، انہیں کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ جب تک منافع پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا اور ان پٹ ٹیکس ختم نہیں کیا جاتا ، تب تک معیشت نہیں چل سکتی۔ ایک طرف ہمارا ٹیکس کا ہدف پورانہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف ٹیکس چوری ہوتا ہے اور تیسرا یہ کہ سیاستدانوں اور بیورو کریسی کو مفت گھر، گاڑیاںو دیگر مراعات دی جارہی ہیں۔
یہ سب معیشت کیلئے نقصاندہ ہے۔ ہماری معیشت سمگلنگ، رشوت اور ٹیکس چوری پر چل رہی ہے۔ ملک سے یہ پیسہ باہر چلا جاتا ہے جس سے معیشت کمزور ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نے ویژن پاکستان کے تحت ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جس میں سات طریقوں سے معیشت ، سوشل سیکٹر، انفارمیشن، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کو ٹھیک کیا جائے گا، امید ہے اس پر کام ہوگا۔پی ڈی ایم حکومت کے دور میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس میں پہلے نمبر پر معیشت ٹھیک کرنا تھا لیکن معیشت تاحال ٹھیک نہیں کی گئی۔
تجارتی خسارہ اور قرضے بڑھے ہیں، اسی حکومت میں قرضے جی ڈی پی کا 69 فیصدتک پہنچ گئے ہیں اور ہماری انڈسٹری منفی 1.4 پر آگئی ہے۔ زراعت نے 1.1 فیصد جبکہ سروس سیکٹر نے 1.5 فیصد گروتھ دی ہے۔ معیشت کے بارے میں خیال تھا کہ اس کی گروتھ 2.5 فیصد ہوگی لیکن یہ 1.9 فیصد ہے جو کافی کم ہے ۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے ہم پر سختی ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت بجلی کے نرخ کم نہیں کر پا رہی۔ ہماری نصف سے زائد آبادی ایک ہزار روپے سے زیادہ نہیں کما سکتی لہٰذا اس کی قوت خرید نہیں ہے جس کی وجہ سے ڈیمانڈ کی کمی ہے اور یہاں صنعت نہیں لگ رہی۔ ہماری انڈسٹری دوسرے ممالک میں منتقل ہوگئی۔ کرپشن کا پیسہ دوسرے ممالک میں چلا گیا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے خوش آئند ہیں۔ یو اے ای نے2ارب اور چین نے بھی اپنے قرضے رول اوور کیے ہیں، سعودی عرب نے 3 ارب ہمارے بنکوں میں رکھے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی ڈیڑھ بلین مل چکا ہے۔ اس سب سے ہمارے ذخائر بڑھے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن اس ناقص ٹیکس نظام اور اتنی بڑی حکومت کے ہوتے ہوئے معیشت نہیں چلائی جاسکتی۔ ہماری آبادی 25 کروڑ ہوچکی ہے جس کا 60 فیصد سے زائد نوجوان ہیں۔
ان کیلئے 6 کروڑ ملازمتیں درکار ہیں، یہ ضرورت نجی شعبے سے پوری ہوگی۔ یہ خوش آئند ہے کہ شرح سود 13 فیصد پر آگئی ہے،اسے 8 فیصد ہونا چاہیے تاکہ لوگ قرضے لے کر کاروبار کر سکیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں کنزیومر لونز تھے جن سے کار، موٹر سائیکل و موبائل انڈسٹری چلی۔ اس وقت ہماری پیداواری لاگت زیادہ ہے جس کے باعث سمگلنگ پر کاروبار چل رہا ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے،امن و امان کی صورتحال خراب ہے، اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا ہے، معیشت کے ہر شعبے میں حکومت کا ہاتھ ہے۔
بجلی کے کارخانے، بینک و دیگر کاروبار میں مقابلے کی فضاء نہیں ہے۔ بلوچستان میں مسائل ہیں، روزانہ ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ جب تک ملک میں امن نہیں آتا، سیاسی و ادارہ جاتی اصلاحات نہیں لائی جاتی، نظام انصاف کو ٹھیک نہیں کیا جاتاتب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمارے ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں، شفافیت اور احتساب نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک بیٹھ رہا ہے۔ ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہورہا، پراڈکٹ عالمی معیار کی نہیں ہے، اس پر کام کرنا ہوگا۔ ہم سیلاب سے بھی بری طرح متاثر ہوچکے ہیں مگر خود کو بدلنے میں آج بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس وقت اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر بھی صحیح معنوں میں کام نہیں ہو رہا ، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہر سمت میں کام نہیں کریں گے، مسائل حل نہیں ہوں گے۔