اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حکومتوں کی آمدنی کا سب سے موثر، محفوظ اور قابل اعتماد ذریعہ ٹیکسوں کا حصول ہوتا ہے۔ کوئی بھی ملک معاشی طور پر اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک وہاں معاشرے کے تمام طبقات ایمان داری سے ٹیکس ادا نہ کریں۔
حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام اور خواص سب کے لیے ایسے ٹیکس قوانین بنائے جو سب کے لیے قابل قبول ہوں اور ہر ایک فرد بخوشی ٹیکس دینے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو۔
وقت اور ضرورت کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کو سو فی صد کامیاب بنانے کے لیے ٹیکس نافذ کرنے والا ادارہ ایسی اصلاحات متعارف کرائے جس سے لوگوں کو ٹیکس کی ادائیگی کی ترغیب ملے، ٹیکس کا دائرہ کار وسیع ہو اور حکومت کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہو سکے، معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے، ملک کی معیشت مستحکم ہو اور اندرونی و بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہو تاکہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کریں نئے کارخانے اور صنعتیں لگائی جا سکیں لوگوں کو روزگار ملے اور ان کے معیار زندگی میں اضافہ ہو، ملک بھی ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کا ٹیکس نظام ٹوٹ پھوٹ اور زبوں حالی کا شکار اور کرپشن، بدعنوانی اور چوری کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، ٹیکس جمع کرنے والے محکمے ٹیکس کا ایسا مستحکم اور سب کے لیے قابل قبول فول پروف نظام متعارف کرانے میں ناکام ہیں جو معیشت کے استحکام کا زینہ بنتا۔ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے گزشتہ دنوں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں بجا طور پر یہ کہا ہے کہ ملک کا نظام سلیب معیاری نہیں ہے جو کاروبار کے چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
انھوں نے کہا کہ تمام شعبوں میں ان گورننس کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر کہا جائے کہ ہر چیز اچھی ہے تو ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اگر ہم حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اعداد و شمار دکھائیں اور خرابیوں کو ٹھیک کریں گے تب ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں، اس ضمن میں ہمیں تجربہ کار لوگوں کے مشورے درکار ہوں گے۔ انھوں نے کراچی کے سرمایہ کاروں اور کاروباری رہنماؤں کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تاکہ معیشت کے حوالے سے ان کے ساتھ کھل کر بات چیت کی جا سکے۔پاکستان میں مختلف قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں۔
ان میں سرفہرست انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور جنرل سیلز ٹیکس شامل ہیں جن کے ذریعے حکومت محصولات جمع کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹیکس وصولی میں 70 فی صد حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے جمع ہونے والا ٹیکس صرف 30 فی صد ہے۔
ملک کی کل آبادی 24 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ٹیکس ادا کرنے والے فائلرکی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 45 لاکھ ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ہر شہری ٹیکس دے رہا ہے، بات ہے سمجھ کی۔ ایک عام دیہاڑی دار مزدور جب ماچس خریدتا ہے، چائے کی پتی خریدتا ہے یا دیگر اشیا ضرورت کی خریداری کرتا ہے تو اس پر جی ایس ٹی ادا کرتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص اپنے گھر کے بجلی کے بلز، گیس کے بلز یا پانی کے بلز جمع کراتا ہے اپنی موٹرسائیکل میں پٹرول یا موبائل میں بیلنس ڈلواتا ہے تو بھی وہ مختلف قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے، لیکن ان کا کہیں کوئی شمار یا ذکر نہیں ہوتا۔ بات صرف فائلر اور نان فائلر تک محدود رہتی ہے۔
ویسے بھی پاکستان میں ٹیکس کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے اور غریب عوام پر ہے۔ جب کہ امیر طبقہ حد سے زائد وسائل اور آمدنی کے باوجود غریبوں کے مقابلے میں کم ٹیکس دیتا ہے۔ہر سال بجٹ کے موقع پر جہاں ایک طرف تنخواہ دار طبقے کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ریلیف دیا جاتا ہے تو دوسری جانب ان کی تنخواہوں و مراعات پر مختلف سلیب کے ذریعے ٹیکس میں اضافہ کرکے دینے سے زیادہ واپس لے لیا جاتا ہے جب کہ ٹیکس ذرایع کے بڑے شعبے زراعت، ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، ایکسپورٹرز اور دیگر کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور فائلر بنانے میں تساہل پسندی سے کام لیا جاتا ہے، ٹیکس کے حصول کا سب سے آسان ’’ہدف‘‘ تنخواہ دار طبقہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے بعض ایسے شعبے ہیں جو تنخواہ دار طبقے سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں۔ مثلاً ایکسپورٹرز تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں کم ٹیکس دیتے ہیں۔ اسی طرح زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 19 فی صد ہے جب کہ ٹیکس کی ادائیگی صرف ایک فی صد ہے۔ خدمات کا شعبہ جس میں ڈاکٹر اور خدمات کے دیگر شعبے اور ریٹیل یعنی دکاندار اور تاجر وغیرہ شامل ہیں ان کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فی صد ہے تاہم ان کا ٹیکس میں حصہ صرف 29 فی صد ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ کی جانب سے بھی ٹیکس کی ادائیگی بہت کم ہے۔
حکومت کے پاس ہر شعبے کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ ایف بی آر کی ذمے داری ہے کہ جن شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے معاشی و ٹیکس ماہرین و تجزیہ کار مشورے دے رہے ہیں ان پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے عمل درآمد کیا جائے نہ کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر چھری چلائی جائے۔
حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر پارلیمنٹ میں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے موثر قانون سازی کرے۔ ٹیکس چوری کرنے والوں پر پابندیاں عائد کی جائیں، خود ایف بی آر میں ٹیکس چوری کے افسانے اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
جب سرکاری ادارہ خود ٹیکس چوری کے الزامات کی زد میں ہو تو وہاں ایمانداری کا گزر کیسے ممکن ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اگر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے اور آئی ایم ایف سے واقعی جان چھڑانا چاہتے ہیں تو فول پروف ٹیکس نظام نافذ کیا جائے۔ سیاسی و جماعتی اور انتخابی مفادات پر ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دی جائے۔