چائے کی چاہ

خدایا اب یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

barq@email.com

ایک زمانہ تھا کہ لوگ چائے کو غریبوں کا مشروب اوردال دلیا کو غریبوں کاکھاجا سمجھتے تھے ،کہتے تھے اورکھاتے پیتے تھے لیکن جب سے یہ دونوں غریبوں کے آنگن سے بھاگ کر امیروں کے پاس گئے ہیں بیچارے غریب حیران ہیں، پریشان ہیں انگشت بدندان اورناطقہ سربگریبان ہیں کہ ؎

خدایا اب یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

بلکہ اس موقع پر ایک پشتو ٹپہ یادآرہا ہے جو پتنگ یعنی پروانے کو کسی نے طعنے کے طور پر سنایا ہوگا کہ

پتنگہ خاورے دے پہ سرشوے

شمع لہ جوڑ شول پہ شیشوکے مکانونہ

یعنی اے پروانے تیرے سر پر خاک پڑگئی کہ شمع کے لیے شیشوں کے مکان بن گئے، یہ بجلی کے بلبوں یادوسرے شیشہ پوش چیزوں کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے ، پتنگے کے بھی کیا مزے تھے ، شمعیں کھلے عام جلتی تھیں اورپتنگے بڑے آرام سے جاکر شہادت کامرتبہ حاصل کرلیتے تھے جیسے ہم جہاں بھی چاہتے دال روٹی کھالیتے تھے یاہوٹل میں چار آنے کی چینک منگا کر دو آدمی عیاشی کر لیتے تھے اوراب ماش کی دال اتنی بدمعاش ہوگئی ہے کہ ہمارے لیے کاش کاش ہوگئی ہے ، نرخ پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں دکاندار نرخ بتانے کے بھی پیسے نہ مانگے۔

کراچی کے ایک دوست مرحوم ڈاکٹر مطیع اللہ ناشاد نے ایک مرتبہ کراچی آنے کی دعوت دی۔ ریلوے اسٹیشن سے اس نے ہمیں وصول کیا اورگھر لے گیا۔ پانچ بچے کاوقت تھا،پہنچتے ہی کھانا کھلایا پھرتھوڑی دیرگپ شپ کے بعد ہم اس کے ساتھ اسپتال کے لیے چل پڑے، جو عرشی سینما کے علاقے میں تھا اورنام بھی عرشی اسپتال تھا۔

ہمیں اپنے کمرے میں بٹھا کر وہ تو اپنے مریضوں میں مصروف ہوگئے ، یہ نشہ چھڑانے کاکلینک تھا ، ہم کبھی اخبار میں کبھی قرب وجوار میں گھومنے میں وقت گزاری کرنے لگے ، بارے خداخدا کرکے وہ بارہ بجے فارغ ہوئے تو ہم گھر کے لیے چل پڑے۔ راستے میں اس نے کچھ شاپنگ بھی کی آخردو بجے گھرپہنچے دو سے تین بجے تک کھانا ہوا ، یہ رات کا کھانا تھا اوروہ پانچ بجے والا دوپہر کاکھاناتھا۔پھروہ زنانہ حصے میں گئے اورہم مردانہ حصے میں اپنے کمرے میں پانچ بجے تک کروٹیں بدلتے رہے، ہم جدی پشتی دیہاتی ہیں۔

 ہماری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ اذان کے ساتھ جاگ جاتے ہیں چاہے آدھا گھنٹہ پہلے ہی کیوں نہ ہو اورچائے بھی منہ اندھیرے پیتے ہیں لیکن یہاں مکمل خاموشی تھی، کبھی لیٹے، کبھی بیٹھے، کبھی ٹی وی دیکھتے ،کبھی باہرچکر لگا آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں کیکروں کا جنگل تھا ، کہیں کہیں کچھ بنگلے بھرے ہوئے تھے کچھ ابھر رہے تھے کہیں بازار یاہوٹل نہیں تھا ۔ خدا خدا کرکے گیارہ بجے ناشتہ ہوا ، اچھا ہوا کہ دوسرے دن گھومتے گھامتے ہمیں ایک ڈھابہ ملا جو کیکر جنگل کے درمیان کچھ تختے وغیرہ کھڑے کرکے بنایا گیا۔

 وہاں کے تعمیراتی مزدوروں یا سامان لانے لے جانے والوں کے لیے ۔ مزاآیا اب، ہم صبح سویرے منہ اندھیرے جاگتے اگرچہ وہ ڈھابہ کافی دورتھا لیکن چائے کی چاہ میں ہم طے کرجاتے وہاں بیٹھ کر کڑک چائے کے ساتھ ایک بن یا پاپے کا ناشتہ کرتے ، اخبار پڑھتے اورگیارہ بجے بنگلے پہنچ کر ان لوگوں کے ساتھ معمول کا ناشتہ بھی کرلیتے ۔لیکن افغانستان میں اس سے بھی بڑی مشکل آئی وہاں تو سرے سے ہماری دودھ والی چائے ہوتی ہی نہیں پورے کابل میں صرف ایک مقام تھا جہاں یہ چائے دستیاب تھی اس مقام کو شعبہ کہتے ہیں وہاں ٹرکوں کے اڈے تھے مستری اورڈرائیور وغیرہ چنانچہ دودھ والی چائے اورپراٹھے دستیاب تھے اب جہاں ہم ٹھہرے تھے۔

 رحمان میتہ ( کالونی) وہ شعبہ سے کافی دورتھا لیکن ہم رکشے میں بیٹھتے ، شعبہ میں پیٹ بھر کر ناشتہ کرتے پھر آرام سے میزبانوں کے گھر آجاتے تھے یہ بھی کراچی کی طرح گیارہ بجے والے تھے لیکن اگر نہ بھی ہوتے تو یہ ہماری والی چائے کہاں سے لاتے جسے مولانا ابو الکلام آزاد نے چائے نہیں ’’حلوہ‘‘ کہا ہے ۔ لیکن کیاکریں کہ ہم اسی چائے کے رسیا ہیں جو ہندو پاک میں رائج ہے بلکہ انڈیا والوں نے تو اسے مسالے دار بھی بنا دیا ہے ، ادرک الائچی اور سونف وغیرہ ڈال کر بلکہ بازار میں بنی بنائی مسالے دار چائے کی پتی بھی دستیاب ہے اور الگ سے چائے کا ڈبہ بند مسالہ بھی ملتا۔ سونف ادرک اورالائچی کے ساتھ کہیں پر لونگ اورکالی مرچ بھی ڈالی جاتی ہے ۔

وہ ایک قصہ تو شاید ہم نے آپ کو سنایا بھی تھا کہ ایک وید کے ہاں ہمیں چائے کی پیالی ہزار روپے میں پڑی تھی ۔ہوا یوں کہ ہمیں کسی نے بتایا کہ آیورویدک والوں نے ایک ایسی دوابنائی ہے جو امراض سے دفاع کے لیے مشہور ہے۔

قرول باغ میں ایک آئیورویدک دکان نظر آئی توجاکر اس دوا کے بارے میں پوچھا ،وید جی نے بڑے سب مان کے ساتھ بٹھایا پھر ایک کھرل نکال کر اس میں کچھ لونگ کچھ الائچی کالی مرچ اورکچھ اوربھی ڈالا ، پیسا اورملازم کو دیتے ہوئے کہا سامنے والے سے یہ ڈال کرچائے لے آؤ ، اس سے کہنا اپنا مسالہ بھی ڈالے ، چائے آئی ہم نے پی لی بے شک اچھی تھی لیکن اس کاسائیڈ ایفیکٹ بڑا ٹریجک تھا اس ایک چائے کی پیالی کے عوض اس ظالم نے چار ہزار روپے وصولے۔ مختلف قسم کی رام بان دوا دے کر جو ہم نے بالکل بھی نہیں کھائی جب ایک پیالی چائے اتنی خطرناک نکلی تو دوا کاکیاپتہ ۔۔ کہیں جان ہی نہ نکال دے لیکن چائے کے سلسلے میں سب سے بڑا مسلہ افغانستان میں اس وقت پیش آتا ہے جب آپ جبل السراج عبور کر کے افغانی ترکستان میں داخل ہوتے ہوئے مزار شریف تک جاتے ہیں ۔

یہاں خالص وہی چائے ملتی ہے جو صرف پتوں کو پانی میں ابال کر تیار کی جاتی ہے، انتہائی کڑوی کاڑہ جیسی لیکن وہ لوگ منہ میں گڑ کی ڈلی یاٹافی دبا کر پوری پوری کیتلیاں پی جاتے ہیں ، راستے میں پہلے اسٹاپ پر تو ایک سہولت میسر آگئی ، صبح کے وقت چائے کے ساتھ ایک چھوٹے سے گلہ میں ’’قیماغ‘‘ (بالائی) ملتی ہے جس کے الگ سے پیسے دینا پڑتے ہیں چونکہ وہ بھی مسلمان ہیں اس لیے گلاس میں اوپر تھوڑی بالائی اورنیچے دودھ ہوتا ہے لیکن ان کی یہ بے ایمانی ہمارے کام کی نکلی ،ہم اس گلاس کو چینک میں ڈال کر کچھ گزارے والی دودھ کی چائے بنالیتے تھے۔

Load Next Story