پیپلز پارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے پر پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومتی حمایت ختم کرنے کی بات کی ہے ، ان کے بقول گیارہ ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا اور پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام پر بھی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، پی پی نے اگر حمایت ختم کر دی تو موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی۔
اس سے قبل پی پی چیئرمین بلاول بھٹو اور دیگر رہنما بھی ایسی شکایات کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جان بوجھ کر کوئی جواب دیا نہیں دے رہی ہے بلکہ (ن) لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال پی پی رہنماؤں کے بیانات کو ہلکی پھلکی موسیقی قرار دے چکے ہیں جب کہ پی پی ترجمان کا حالیہ بیان ایسا ظاہر نہیں کر رہا مگر حکومت مطمئن ہے اور وزیر اعظم نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ کراچی میں یہ ضرور دیکھا گیا کہ گورنر سندھ کراچی میں وزیر اعظم کی گاڑی چلاتے رہے اور وزیر اعظم گزشتہ سال منتخب ہونے کے بعد پہلی بار سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے گھر گئے اور انھیں پوتے کی مبارک باد پیش کی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ الیکشن کے بعد لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کے گھر منعقدہ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے حکومت سازی کا متفقہ فیصلہ کیا تھا اور پی پی قیادت نے میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم منتخب کرانے کا فیصلہ اس جواز پرکیا تھا کہ قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کی نشستیں زیادہ ہیں اور 2022 میں بھی پیپلز پارٹی نے اسی بنیاد پر شہباز شریف کو پہلی بار وزیر اعظم بنوایا تھا بلکہ ان کی حکومت میں شامل بھی ہوئی تھی اور حکومت میں شامل پی پی کے وزیروں میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو بھی بطور وزیر خارجہ شامل ہوئے تھے اور اس حکومت نے قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک 16 ماہ حکومت کی تھی جس میں پی ٹی آئی کے عارف علوی صدر مملکت تھے اور انھوں نے بھی قومی اسمبلی کی طرح اپنی مدت مکمل کی تھی۔
فروری کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کی دوسری حکومت میں اپنے وزرا شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر مسلم لیگ (ن) متفق نہ تھی مگر آصف زرداری کو ستمبر میں عارف علوی کی جگہ صدر مملکت منتخب کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پی پی کی خواہش پر سینیٹ کی چیئرمین شپ، قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ، پنجاب و کے پی کی گورنری اور بلوچستان میں پی پی کے وزیر اعلیٰ کی مخلوط حکومت بنانے کے فیصلے ہوئے تھے۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی بھی اسی طرح واضح اکثریت تھی جیسی پیپلز پارٹی کی سندھ میں اور پی ٹی آئی کی کے پی میں تھی مگر بلوچستان میں ماضی کی طرح کسی کو اکثریت حاصل نہ تھی اس لیے وہاں مسلم لیگ (ن) نے پی پی کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا۔
پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھی مگر پی پی اور (ن) لیگ کی قیادت نے پنجاب میں حکومت سازی کا ایک فارمولا طے کر لیا تھا اور جنوبی پنجاب جہاں پی پی کے زیادہ ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے وہاں پیپلز پارٹی کو حکومت سازی میں ترجیح دینے کا فیصلہ شامل تھا۔ پیپلز پارٹی شمالی اور وسطی پنجاب علاوہ جنوبی پنجاب میں بھی برائے نام رہ گئی ہے اور پنجاب میں دو بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پنجاب کو اہمیت دینے پر مجبور ہے کیونکہ پنجاب سے معقول نشستیں جیت کر ہی آیندہ پی پی اپنا وزیر اعظم لا سکتی ہے مگر موجودہ صورت حال میں ایسا ممکن نہیں ہے اور پیپلز پارٹی سندھ سے واضح اکثریت اور بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے کچھ نشستیں جیت کر اپنا وزیر اعظم نہیں لاسکتی۔
اس لیے وہ پنجاب میں پی پی اپنا اثر بڑھانے کے لیے (ن) لیگ پر دباؤ رکھے ہوئے ہے اور پی پی کے گورنر پنجاب جو غیر معروف شخصیت ہیں اور پنجاب میں اہم عہدہ لے کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے مگر وہاں حکومت بھی انھیں سیاسی اہمیت نہیں دے رہی اور مریم نواز پنجاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ پنجاب میں (ن) لیگ کا مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہے اور پیپلز پارٹی کو وفاق سے زیادہ شکایات پنجاب حکومت سے ہے جو پی پی کو پنجاب میں جگہ نہیں دے رہی جب کہ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو من پسند جگہ ملی ہوئی ہے اور گیلانی خاندان کی وہاں ٹھیک ٹھاک اہمیت اور سرکاری اثر و رسوخ ہے۔
وفاق میں اقتدار کے لیے پی پی کی حمایت (ن) لیگ کی واقعی مجبوری ہے مگر (ن) لیگ کی یہ مجبوری پنجاب میں نہیں پھر بھی پیپلز پارٹی وہاں پاور شیئرنگ میں معقول حصہ چاہتی ہے جو وزیر اعلیٰ دینے کو تیار نہیں اور نہ وہ پنجاب میں پی پی کو وہ اہمیت دے رہے ہیں جو وفاق میں پی پی کو حاصل ہے۔وفاق سے پی پی کی بعض شکایات جائز ہیں مگر وزیر اعظم کو نہ جانے کیا مسئلہ ہے کہ وہ آئین کے مطابق ہر تین ماہ بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلاتے اور اہم معاملات میں پی پی کو اعتماد میں نہیں لیتے۔ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت میں وزارتیں نہ لے کر سمجھ رہی ہے کہ وہ پنجاب میں جگہ بنا لے گی۔
وہ پنجاب میں وزارتیں چاہتی ہے مگر وفاق میں وزارتوں کے بجائے تمام آئینی عہدوں پر ہے اور مزے لے رہی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف بطور وزیر اعظم قوم کو جواب دہ ہیں مگر پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں اور اس کے اہم آئینی عہدیدار محفوظ بھی ہیں اور پی پی کی وجہ سے وزیر اعظم غیر محفوظ ہیں مگر پھر بھی پی پی کو اس کی خواہش کے مطابق اہمیت نہیں دے رہی جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پی پی کی دھمکیاں محض دھمکیاں ہیں اور دونوں کو اقتدار دلانے والے پی پی کو حکومت کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے۔