دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ ایک نئی صف بندی کی تیاری نظر آرہی ہے۔ دنیا کے حکمران امریکا کا نیا سربراہ نئی پالیسیوں کے ساتھ اقتدار میں آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دنیا کے نئے حکمران نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی نئے دشمنوں اور نئے دوستوں کی فہرست جاری کی ہے۔
اس کی نئی فہرست اور نئی پالیسی نے دنیا کے کئی خطوں میں خطرہ کی گھنٹیا ں بجائی ہیں۔ دوست دشمن بنتے نظر آرہے ہیں اور دشمن دوست بنتے نظر آرہے ہیں۔ نئے سربراہ کے نزدیک دوستی اور دشمنی، اب معاشی مفاد کی بنیاد پر طے کی جائے گی۔ ورنہ اس سے پہلے اسٹرٹیجک مفاد اور حکمرانی کے رعب کی بنیاد پر دوست اور دشمن بنائے جاتے تھے۔
کل تک جو امریکا کے بہترین دوست تھے، آج دوست نظر نہیں آرہے۔ کل تک اسٹرٹیجک پارٹنر اب پارٹنر نظر نہیں آرہے۔ دنیا بدل رہی ہے۔ اتحادیوں کی بھی نئی فہر ست بنتی نظر آرہی ہے۔ نیا حکمران ایسے کسی اتحاد کے موڈ میں نہیں جس میں امریکا کا معاشی مفاد نہ ہو۔ وہ دنیا کے ساتھ معاشی جنگ شروع کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے امریکا عسکری جنگیں لڑتا نظرآیا ہے۔ ٹرمپ نے جنگ ختم کرنے کے نام پر اقتدار حاصل کیا ہے۔ وہ جنگ کے خلاف ہے۔ اس کے نزدیک جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی لیے وہ جاری جنگوں کے بھی خاتمہ کی بات کرتا ہے۔
امریکا کے نئے سربراہ کہتے ہیں کہ اگر ان کے اقتدر سنبھالنے سے پہلے اسرائیل اور غزہ کے درمیان سیز فائر نہیں ہوا تو وہ حماس کو نہیں چھوڑیں گے۔ اسی لیے آجکل سیز فائر اور امن معاہد ہ قریب نظر آرہا ہے۔ شاید کل تک اسرائیل کی جو باتیں ناقابل قبول تھیں، اب کڑوی گولی سمجھ کر قبول کرنی پڑ رہی ہیں۔
شاید اسرائیل کے ساتھ تو مزید لڑا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹرمپ کا خوف بھی نظر آرہا ہے، اس لیے ٹرمپ کے آنے سے پہلے امن معاہدہ کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ یہی صورتحال یوکرین کی بھی ہے۔ امید یہی ہے کہ اب یوکرین کو اس طرح امریکی امداد نہیں ملے گی جیسے پہلے مل رہی تھی۔
ٹرمپ نیٹو میں بھی پیسے نہیں لگانا چاہتے۔ ان کا موقف ہے کہ یورپ کے دفاع پر امریکا کیوں پیسے خرچ کرے۔ یورپ کو اپنے دفاع پر خود پیسے خرچ کرنے چاہیے۔ اگر امریکا نے نیٹو میں پیسے نہیں دینے تو پھر یوکرین کی لڑائی پر بھی امریکا کیوں پیسے خرچے، وہ بھی تو نیٹو کی لڑائی ہے۔ یورپی یونین کی لڑائی ہے۔ ویسے تو اس وقت پولینڈ نیٹو میں سب سے زیادہ پیسے خرچ رہا ہے۔
لیکن لڑائی بھی تو پولینڈ کے بارڈر پر لگی ہوئی ہے۔ امریکا تیسر ے نمبر پر ہے۔ لیکن شاید ٹرمپ کو یہ بھی قبول نہیں۔ ٹرمپ کا موقف ہے کہ نیٹو کے بڑے یورپی ملک امریکا سے کم پیسے خرچ رہے ہیں۔ امریکا فرانس اورجرمنی سے کیوں زیادہ خرچ رہا ہے۔ اس لیے ایک رائے یہ ہے کہ اب یوکرین کو امریکا کی فنڈنگ ویسے نہیں ملے گی جیسے پہلے مل رہی تھی۔ اس سے یہ جنگ ختم ہو سکتی ہے۔ کیا یورپ اس جنگ کا خرچہ اٹھا سکے گا۔ مشکل نظرا ٓتا ہے، اس لیے جب پیسے ختم ہوںگے تو جنگ بھی ختم ہوگی۔
امریکا کا نیا سربراہ امریکا کو لوٹنے والے دوستوں سے چھٹکارا چاہتا ہے۔ وہ پیسے خرچ کر کے چودھراہٹ قائم رکھنے کے حق میں نظر نہیں آرہا۔ اس کا موقف ہے کہ چوہدری کو تو پیسے لینے چاہیے۔ امریکا کیسا چوہدری ہے جو اپنے دوستوں پر اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے انھیں معاشی فوائد دیتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ دوستوں کو امریکا کو معاشی فوائد دینے چاہیے، اسی لیے نیٹو اور کینیڈا کی پہلی باری نظر آرہی ہے۔ ٹرمپ کو ایسے دوستوں کی ضرورت نہیں جو امریکا سے مالی مفاد لیں۔
ٹرمپ کینیڈا کو اپنی معاشی طاقت سے سرنگوں کرنا چاہتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ کینیڈا میں اتنی معاشی طاقت نہیں کہ امریکا کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ وہ کینیڈا کو امریکا کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ میکسیکو کو امریکا کا حصہ نہیں بنانا چاہتے۔ انھیں پتہ ہے میکسیکو غریب ہے۔
غریب کی ٹرمپ کی نئی پالیسی میں کوئی جگہ نہیں۔ وہ ایسے امیروں کی تلاش میں ہیں جو ان کے مطابق امریکا کی وجہ سے امیر ہیںاور امریکا ان پر پیسے خرچ کر کے غریب ہو رہا ہے۔ان کا معاشی مفاد بند کر کے امریکا کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ معاشی جنگیں کرنے کے ارداے سے آرہے ہیں۔ لیکن ان کی معاشی جنگوں میں دشمنوں سے زیادہ دوست نشانے پر نظر آرہے ہیں۔
کیا ٹرمپ اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ وہ امریکا کے پہلے صدر ہیں جو سزا یافتہ ہیں۔ انھوں نے امریکی جمہوریت کے اس فلسفے کی بھی نفی کر دی ہے جہاں سیاست میں اخلاقیات کا بڑ اکردار تھا۔ وہ سزا یافتہ ہیں اور بطور سزا یافتہ صدارت کے منصب پر آرہے ہیں۔
ان کی امریکی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی ہے۔ ان کی امریکا کی ڈیپ اسٹیٹ سے لڑائی ہے۔ وہ ان کی مزاحمت کے باوجود اقتدار میں آرہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکی اسٹبلشمنٹ ہار گئی ہے کیونکہ لڑائی ابھی جاری ہے۔
ایک مرحلہ طے ہوا ہے، تمام تر مقدمات کے باوجود، سزا یافتہ ہونے کے باجود ، ٹرمپ کو روکا نہیں جا سکا۔ وہ آرہے ہیں لیکن ابھی ہار جیت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ کا صدر بننا کوئی مکمل فتح نہیں اور امریکا کی اسٹبلشمنٹ کی مکمل شکست نہیں۔ ایک ایک مرحلہ پر جنگ ہوگی اور ایک ایک مرحلہ پر جیت ہا رکا فیصلہ ہوگا۔ ٹرمپ نے ہر وقت حالت جنگ میں رہنا ہے۔ ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں۔
جو ملک اس وقت امریکا سے کوئی بڑ امعاشی مفاد نہیں لے رہے۔ ان پر ٹرمپ کی توجہ کم رہے گی۔ وہ ٹرمپ سے محفوظ رہیں گے۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں ہے۔ اسرائیل ٹرمپ کی توجہ کا مرکز ہوگا۔ وہ گریٹر اسرائیل کے لیے کام کریں گے۔ انھوں نے پہلے بھی عربوں کو اسرائیل کو قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔
وہ مزید بھی کریں گے۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ سامنے آرہا ہے ۔ شام گر چکا ہے، ایران کی باری نظر آرہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے لوگوں نے پیرس میں ایران کی موجودہ رجیم کے مخالفین سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ وہ ایران میں رجیم چینج چاہتے ہیں۔ افغان طالبان کے ڈالر بند کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کے دونوں ایجنڈے پاکستا ن کے مفاد میں ہیں۔ افغان طالبان کے ڈالر بند ہوں، پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ہمیں ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ایران کی موجودہ رجیم بھی کوئی پاکستان کے خاص حق میں نہیں ہے۔ ٹرمپ کی آمد سے ممکن ہے، بلوچستان میں عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھے، یوں پاکستان کے لیے آسانی پیدا ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان اس وقت امریکا سے کوئی ایڈ لے رہا ہے نہ کوئی گرانٹ، جو ٹرمپ بند کر دیں گے ۔تجارتی حجم بھی کوئی اتنا بڑا نہیں ہے کہ توجہ طلب ہو۔ اس لیے ہم ٹرمپ کی پالیسی میں کہیں نہیں ہیں۔